صدام، بھٹو اور مشرف

بدھ 8 جنوری 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

A criminal? True. A killer? True. A butcher? True. But he was strong until the end. He was wearing a jacket and a white shirt, normal and relaxed, and i didn't see any signs of fear.
صدام حسین کے بارے میں ان خیالات کا اظہار سابق عراقی سیکورٹی ایڈوائزر موافق البرائی نے ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کو انٹرویودیتے ہوئے کیا۔ یہ انکشافات ایسے عراقی اہلکار نے کئے جس نے صدام حسین کی پھانسی کا نہ صرف سارا منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ آخری لمحات میں کمرہ عدالت اور اس کے بعد پھانسی کے پھندے تک صدام حسین کے ساتھ تھا۔عراقی اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس شخص کو موت سامنے نظر آرہی ہو اور وہ اس حقیقت سے واقف ہو کہ چند لمحات میں اس کی زندگی کا خاتمہ ہونے والا ہے ہمت ہار دیتا ہے، دل برداشتہ ہوتا ہے، یا شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے ، لیکن صدام حسین نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا وہ دیدنی تھا۔

(جاری ہے)

صدام حسین کے چہرے پر خوف یا پریشانی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ جب اس نے صدام کو ان کے کمرے سے لایا توصابق صدر کے ہاتھوں میں ہتھکڈی لگی ہوئی تھی اور انہوں نے قران پکڑا ہوا تھا۔میں صدام کو کمرہ عدالت میں لے گیا جہاں جج نے صدام حسین کو ان کے جرائم پڑھ کر سنائے، اس دوران صدام حسین امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اور اسلام کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ جب میں صدام کو اس کمرے میں لے گیا جہاں انکی پھانسی ہونی تھی، تو صدام حسین نے اندر داخل ہوتے ہی پھانسی کے پھندے پر نظریں دوڑادیں ، پھر میرے چہرے کی طرف دیکھا اور کہا "یہ مرد لوگوں کیلئے بنا ہے"
موافق البرائی کا انگریزی میں انٹرویو مجھے ایسے وقت پڑھنے کا موقع ملا جب پاکستان میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ہسپتال میں داخل ہیں اور انکی بیماری نہ صرف الیکٹرانک میڈیا میں بریکنگ نیوز کے طور پر بلکہ اخبارات میں شہ سرخیوں میں دی جارہی ہے۔ عام لوگ بھی ایک دوسرے سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا کمانڈو پرویز مشرف اتنے بزدل ہیں کہ وہ عدالت کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں؟ کیا عدالت جاتے ہوئے وہ اتنا دل برداشتہ ہوئے کہ انکے دل کا دورہ پڑا؟ کیا وہ واقعی دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے یا کوئی ڈرامہ کھیل رہے ہیں؟ بہر حال بات جو بھی ہے پرویز مشرف کے اس اقدام نے بزدلی کی ایک نئی مثال قائم کی۔ بعض اطلاعات کے مطابق پرویز مشرف یکم جنوری کو عدالت جانے کیلئے تین مرتبہ گاڑی میں بیٹھے اور اترے۔ پھر اچانک انہیں اپنے وکیل کا فون آیا اور اور انہوں نے فون بند کرکے خود ابلاغی میں کہا اب تو عدالت جانا ہی پڑے گا۔ پرویز مشرف بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھے اور عدالت کی طرف روانہ ہوئے لیکن تھو ڑے ہی فاصلے پرانہیں ٹھنڈے پسینے آنے لگے اور یکے بعد دیگرے تین مرتبہ ٹیشو پیپرز کا استعمال کرنا پڑا اور بالآخر ڈرائیور کو گاڑی کا رخ ہسپتال کی طرف کرنا پڑا۔
اگر پرویز مشرف کے اقتدار کے دنوں کو یاد کیا جائے تو ذہن میں آتا ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کے سامنے مکے بھی ہوا میں لہرائے تھے، وہ یہ بھی کہتے رہے ایمرجنسی میں نے ڈکلیئر کی ہے، میں کمانڈو ہوں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں، میں نے فرنٹ لائن پر جنگیں لڑی ہیں، ٹیبل پر بیٹھ کر کمانڈ نہیں کی فرنٹ لائن کا کمانڈر رہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایک مشہور کہاوت ہے Action speakes lauder than words۔ یعنی انسان کو اس کی باتوں سے نہیں بلکہ اس کے فعل پہچاناجاتا ہے۔ پرویز مشرف بے شک کمانڈو ہونے اور کسی سے نہ ڈرنے کے دعوے کرتے رہے لیکن انکی زندگی میں پہلی مرتبہ انہیں خطرے کا سامنا کرنا پڑا تو دل کمزور پڑگیا اور اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرنے کیلئے عدالت پہنچنے کے بجائے ہسپتال پہنچ گئے ۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی پہلی سماعت 24دسمبر کو تھی تو مشرف کے راستے میں ایک تھیلے سے 5کلو وزنی بم اور دو پستول برآمد ہوئے جس کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی۔ 30دسمبر کو اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں واقعہ پرویز مشرف کی رہائش گاہ کے قریب دھماکہ خیز مواد کے پانچ پیکٹ برآمد ہوئے ۔ یکم جنوری کو پرویز مشرف کی سماعت تھی تو وہ حاضر نہ ہوئے، جج صاحبان نے ساڑھے گیارہ بجے ہر صورت عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا تو پرویز مشرف کی اصل بہادری سامنے آئی۔ بہادر کی بہادری اس وقت نظر آتی ہے جب اس کو سامنے موت نظر آرہی ہو۔ بہادر انسان موت دیکھ کر مسکراتا ہے اور موت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے ۔لیکن بزدل انسان موت سے گھبراتا ہے۔
اگر ہم گوگل سرچ کریں تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کی وہ یادگار تصویر بھی دکھائی دیتی ہے جس میں انہیں ہتھکڑیاں لگا لر عدالت لایا جارہا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو تھری پیس سوٹ میں مرد مجاہد کی طرح مسکراتے ہوئے چل رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جیل کے دنوں کی روداد سنیں یا پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عظیم لیڈر کیسے مشکلات کا ہنستے مسکراتے سامنا کرتا ہے۔ دنیا میں کئی بڑے رہنماؤں کو سزائے موت ہوئی لیکن پھانسی کے پھندے تک پہنچ کر بھی کسی کو دل کا دورہ نہیں پڑا لیکن پرویز مشرف تقریباً ایک دھائی تک ملک کی قیادت کرتے رہے عدالت کا سامنا کرنے سے ہی گبھراگئے۔ اس واقعہ کے بعدکوئی شخص اپنی بہادری ظاہر کرنے کیلئے شائد یہ کہنے سے پہلے کئی بار سوچے گا کہ "میں کمانڈو رہا ہوں"کیونکہ یہاں تو کمانڈو کا دل بھی کمزور نکلا۔
دسمبر2013میں ملا عبدالقادر کو بنگلہ دیش میں پھانسی دی گئی ، وہ بھی پھانسی گھاٹ تک نہ صرف باتیں کرتے رہے بلکہ مسکراتے رہے ۔ اگر اس بات کو تسلیم بھی کیا جائے کہ پرویز مشرف واقعی دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عین اسی وقت جب وہ عدالت کی طرف جارہے تھے تو دل کے عارضے میں مبتلا ہونا کس بات کی عکاسی کرتا ہے ؟ دوم یہ کہ پرویز مشرف کو 24دسمبر کو عدالت نے طلب کیا تو اس روز عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے؟ اور کیا پرویز مشرف اب بھی عدالت میں پیش ہونے کیلئے تیار ہیں؟ ان سارے سوالات کا جواب منفی میں ہی ملے گا۔ عظیم لیڈر وہ ہوتا ہے جو نہ صرف عظیم کارنامے انجام دیتا ہے بلکہ موت کو گلے لگانے کا وقت آئے تو ہنستے مسکراتے موت کو بھی گلے لگاتا ہے ۔ سابق صدر جنرل ریٹارئرڈ پرویز مشرف کو ذوالفقار علی بھٹو اور صدام حسین سے ہی سبق سیکھنا چاہئے۔ چاہئے وہ گناہ گار تھے یا بے گناہ لیکن ایک بات طے ہے کہ انکی موت نے ثابت کردیا کہ وہ حقیقی کمانڈو تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :