ترقی اور ایمان

بدھ 24 جون 2015

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

آج سے کم و بیش 25 سال پرانی یعنی1990کی یاداشت کو ٹٹولاجائے تو آجکل کی گرمیوں کی کے مقابلے میں وہ گرمی زیادہ ہوتی تھی۔احقر آٹھویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا۔اس دور میں چیدہ امیرزمینداروں کے گھر میں بجلی ہوتی تھی اور وہاں عوام کی بیٹھک پنکھوں کی ٹھنڈی ہوا میں سجی کرتا تھی۔چھوٹے بڑے اپنے اور دوسروں کے بزرگوں کا دل سے احترام کیا کرتے تھے۔

گرما گرما حقے کے ساتھ ہشاش بشاش گفتگو کرنے والے بزرگ ہوا کرتے تھے۔اس وقت کے لوگ لڑائی جھگڑوں اوربحث مباحثے کی نوبت سے پہلے بات ختم کر لیتے تھے۔اگر کسی کا جھگڑا ہو جاتا تو فوراً صلح کرا دی جاتی تاکہ معاملہ انتہا تک نہ چلا جائے۔خوشی غمی میں اس وقت کے لوگ بھائی بھائی نظر آتے تھے۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تو گاؤں کی اکثریت روزوں کا احترام کرتی اور حقہ کے عادی افراد اپنے حقے شام کی اذان کے بعد ہی سجاتے۔

(جاری ہے)

چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے روزے رکھتے ،بارہا دیکھا کہ شدید گرمی سے ہلکان روزہ دار نہر کے بہتے ہوئے پانی میں نہا کر یا درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر تلاوت کرکے یا گپ شپ لگا کر وقت پاس کرتے۔کرکٹ گراؤنڈ میں روزہ دار کھلاڑی روایتی طریقے سے مقابلہ زن ہوتے۔روزہ رکھنے اور کھولنے کے لئے دیسی اور قدرتی خوراک جس میں مکھن،دیسی گھی،ساگ اوردیسی انڈے اور خالص شہد تقریباً ہر گھر میں پائے جاتے تھے۔

لوگوں میں دین کا شرم و حیا بھی ہوتا تھا اور مذہب سے لگاؤ بھی۔
اب وقت بہت بدل گیا ہے۔اب نہ تولوگوں کی وہ خوراک رہی ہے اور نہ ہی لوگوں میں اتنا مذہبی رحجان پایا جاتا ہے۔بے حیائی اور بے شرمی ہمارا شعار ہو گیا ہے۔ ہم لوگوں نے بزرگوں کا احترام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔خوراک کا خالص ہونا ایک خواب بن کے رہ گیا ہے۔

پانی شائد کہیں سے خالص مل جائے ورنہ باقی شہر میں ہماری تمام خوراک میں ملاوٹ دکھائی دیتی ہے۔بازار میں ملنے والے دودھ کا اعتبار نہیں ہوتا کہ کاسٹک سوڈا کا ہے یا دودھ بھینس کو ٹیکے لگا کر نکالا گیا ہے۔دیسی گھی اور مکھن کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کس کس چیز سے ملا کر بنایا گیا ہے۔شہد بنانے کے لئے نجانے شیرہ کے علاوہ کیا سے کیا مکس ہوتا ہے۔

گوشت لینے جاؤ تو گدھا تک بیچنے سے باز نہیں آتے۔شیور مرغی کا گوشت کھا کر بلڈ پریشر ہائی ہونا شروع ہو جاتا ہے۔رمضان کا مہینہ ہوتا ہے تو دکاندار بھائی گاہکوں کا جی بھر کے بھرکس نکالتے ہیں۔ہر شے کا ریٹ دگنا ہوجاتا ہے۔سب سے ادنیٰ فروٹ اور سبزی عوام کو مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے۔
دنیا کے بازاروں میں مذہبی دنوں اور عیدین پر اشیاء سستی کی جاتی ہیں۔

ہمارے تاجر رمضان اور عیدین پر اشیاء مہنگی کر کے عوام کا جوس بناتے ہیں۔گرمی آتی ہے تو محکمہ واپڈا کے کمزور ٹرانسفارمر پھٹ جاتے ہیں،لوگوں کو لوڈ شیڈنگ یا لو وولٹیج کا سامنا ہوتا ہے۔کراچی میں اس دفعہ شدید گرمی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔زیادہ تر افراد گرمی اور پانی کی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔

مرنے والے تو چلے گئے لیکن بچنے والوں کو یہی پیغام دے گئے کہ بھائی جب تک جینا ہے لوڈشیڈنگ اور پانی کی کم یابی کا رونا روتے رہنا۔اللہ پناہ!اللہ معافی!کتنی افسوسناک بات ہے کہ گرمی سے مرنیوالے افراد کے لواحقین کو میت رکھنے اور میت کو غسل دینے کی سہولت تک میسر نہیں آ رہی۔حکومت سندھ ہو یا وفاقی حکومت ہو یا ہماری جیسی عوام سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

ایسے مواقع پر ہم سب کو متحد ہو جانا چاہیئے تاکہ متاثرین کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہو۔ہم سب کو عملاً مسلمان نظر آئیں تو ہم سب کے لئے کتنی بڑی نعمت کی بات ہے۔
پاکستان میں پچھلی تمام حکومتوں نے لوڈ شیڈنگ کو کوئی سدباب نہیں کیا۔سب نے چلتے نظام کو دھکا سٹارٹ رکھا۔بجلی کے جو منصوبے شروع کئے کہ تاریخی ریکارڈ بنتے گئے، اس میں اتنے گھپلے ہوئے کہ ملک محض مقروض ہی ہوا۔

موجودہ حکومت نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے لیکن تاحال بجلی حکومت کے مکمل قابو میں نہیں آسکی۔پاکستان میں پانی کے آبی ذخائر کو جمع نہیں کیا گیااس وجہ سے پاکستان کے بڑے شہروں میں پانی کی کمی کا مسئلہ کئی سالوں سے حل نہیں ہو پایا۔موجودہ حکومت کو باقی مسائل سمیت اس اہم ترین مسئلہ کو حل کرنے کے لئے فی الفور اقدامات اٹھانے ہونگے تاکہ عوام حکومتی کاوش سے فیضیاب ہو سکیں۔

اگر اب بھی پانی کے لئے شہر کے تمام اہم علاقوں میں بڑی بڑی ٹینکیاں بنا کرگھر گھر پانی دینے کے علاوہ فری واٹر فلٹر پوائنٹ بن جائیں اور ان پر سرکاری ملازمین کی ڈیوٹی ہو جوکہ عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان سرکاری املاک کا خیال بھی رکھیں تو کیا بات ہے۔
اب کالم کے اختتام میں اگر کراچی کو سیاق و سباق سے دیکھا جائے توکتنے شرم کی بات ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی اور محلے داری تک خبر گیری نہیں ہوتی۔

کسی کا کوئی مرتا ہے تو بھلا مر جائے۔ہم ایک دوسرے کی خوشی و غم سے بے خبر ہیں۔حسد کی آگ نے ہمیں جکڑ رکھا ہے۔ہم راتوں رات امیر بننے کی تدابر پر عمل پیرا ہیں۔گھروں میں بچوں کی نہ تو ٹھیک سے پرورش ہو رہی ہے اور نہ ہی بچوں کی عین اسلامی تعلیمات پر تربیت ہو رہی ہے۔چھوٹے چھوٹے بچے ٹی وی فلم کارٹون ہیرو کو اپنا قائد گردانتے ہیں۔کارٹون تو بے کردار ہوتے ہیں،جھوٹے،نمائشی،تکبر سے بھرے،مکار اور ہوشیار کردار ہوتے ہیں۔

ان کو دیکھنے کے بعد بچوں کے اخلاق پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہمارے بچوں کواپنے پیارے نبیﷺ ،صحابہ اکرام اور خلفائے راشدین کی خوبیوں اور کردار تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی۔اگر ہمارے بچوں تک مذکورہ نیک ہستیوں کی کہانیاں اور کردار کھولے جائیں تو ہمارے بچے بھی بارکردار اور متقی ہو جائیں۔
ہمارے سیاستدان عوام سے ہیں اور عوام بھی کیسی کہ ان سے نکلے ہوئے سیاستدان بھی اپنے کردار سے سر شرم سے جھکا دیتے ہیں۔

دیکھیں ناں! اب سابقہ وزیر اعظم گیلانی صاحب کے گلے سے امداد میں دیا جانے والا ہار نہیں اتر رہا،کتنی افسوسناک بات کہ ایک ملک کا وزیر اعظم ہار لیکر رفو چکر ہو گیا! سابقہ وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب ہندوستانی بزنس مین کے اقتصادی مشیر بن گئے ہیں اور شوکت عزیزصاحب نے اتنا نہیں سوچا کہ ہندوستان پاکستان کے خلاف کیا سے کیا نہیں کرتا۔ہمارے دفتری ملازمین دفتری تنخواہ کے علاوہ دفتری خریداری میں کمیشن سے باز نہیں آتے۔

وزیراعلیٰ سندھ کو کراچی اموات کی خبر نہیں لیکن افطار پارٹی کا بندوبست کرنے کا وقت بہت ہے۔جو فوج ملک و قوم کی محافظ ہے زرداری صاحب نے اسے کے خلاف بیان داغ دیا۔جس ملک کی ترقی کے لئے ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے اسی ترقی میں عمران خان اور قادری صاحب رکاوٹ بننے کے لئے شیخ رشید اور ق لیگ کا اتحاد بنا لیتے ہیں۔سب مٹی ہے لیکن ہمیں شاید یہ بات نہ تو عوام کی سمجھ میں نہیں آتی اور نہ ہی سیاستدانوں کے لئے لمحہ فکریہ بنتی ہے ۔جہاں غیرت اور شرم نہیں وہاں ترقی اور ایمان نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :