سچی توبہ

جمعہ 1 مئی 2015

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

”میرے پاس اپنا کیری ڈبہ تھا جو میرے والدین نے بڑی مشکلوں سے لیکر دیالیکن میرے اندر ایک جنون تھا جو مجھے ملک سے باہر جانے پر بضد رکھتاتھا۔کیری ڈبہ سے میں اوسطاً ہزار روپیہ روزانہ کے کما لیتا تھا۔مہینے بعد انجن آئیل تبدیل کرنے کے علاوہ کبھی کبھی گاڑی تھوڑا بہت خرچ بھی نکال لیتی تھی جس کے لئے میرے پاس اچھے خاصے پیسے موجود ہوتے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں میں اپنے حالات سے تنگ تھا۔

میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس سے کہیں زیادہ پیسے کماؤں ۔میں راتوں رات امیر بننا چاہتا تھا۔“
وہ باتیں کرتا ہوا بار بار پہلو بدل رہا تھا اس کی کرسی سے چیں چیں کی آواز میرے کانوں میں گونجتی لیکن یہ چیں چیں اسے بات کرنے سے ڈسٹرب بھی نہیں کر رہی تھی۔اس کی گفتگو میں میری دلچسپی بڑھتی گئی۔

(جاری ہے)


”ہماری دس ایکٹر زمین تھی ،میرے ایک ہی بڑے بھائی تھے جو کہ میری طرح ان پڑھ تھے اور شادی شدہ تھے والد صاحب کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ۔

گھر کا اچھا بھلا گزارہ چلتا تھا۔میری دو ہی بری بہنیں تھیں اور ان کی شادی بہت عرصہ پہلے ہی ہوچکی تھی لہٰذا ہمارے گھر پر ان کی ذمہ دار نہیں تھی۔گھر والوں میری شادی بہت پہلے ہی میری خالہ زاد کزن سے طے کر رکھی تھی۔جب امی ابو نے مجھے پر پُرزے نکالتے دیکھا تومیر ی شادی کر دی۔بیوی سے اکثر جھگڑا رہتا کیونکہ مجھے گاڑی میں ہر روز طرح طرح کی دوشیزائیں بٹھانے کو ملتیں اور اپنی ”پینڈو“ بیوی مجھے ایک نظر بھی نہ بھاتی۔

میں اپنی کمائی کا زیادہ طرح حصہ ٹیلی فون کے لوڈ پر خرچ کر دیتا کیونکہ مجھے ہر روز کئی گرلز فرینڈز کی کالز موصول ہوتیں۔
میں بہت بھٹک چکا تھااتنا زیادہ کہ گھر میں بیوی دو بچے اور والدین مشکلوں سے گزارہ کرتے اور میں ٹائم پاس کرنے خوبصورت خواتین کے ساتھ طرح طرح کے ریسٹورینٹس میں کھانا کھاتا اور ان سے گپ شپ لگا کر یہی سمجھتا کہ یہی زندگی ہے۔

ایک دن میں بہت دیر سے گھر پہنچا تو شدید صدمہ ہوا کیونکہ میری والدہ کو میری عدم موجودگی میں ہارٹ اٹیک ہوا لیکن انہیں ہسپتال لیجانے کے لئے میرا نہ ہونا ان کے لئے باعث موت بنا ۔میری بیوی بار بار فون کرتی رہی اور میں گر ل فرینڈ کیساتھ رنگ رلیاں مناتا رہا اور اپنافون سائیلنٹ پر رکھا،میری بد نصیبی کہ اپنی والدہ کی بیماری سے لاعلم رہا۔


میں والدہ کی ناگہانی موت سے کافی عرصہ ڈسٹرب اور مستقبل میں ایسی کوئی حرکت نہ کرنے کا عزم مصصم کر لیا لیکن والدہ کے انتقال کے پانچ مہینے بعد دوبارہ شیطان نے مجھے اسی راہ پر لگانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی اور میں بے نماز آدمی کسی مزاحمت کے بغیر گمراہی کے اسی راستے پر گامزن ہو گیا۔تاریخ نے ایک دفعہ پھر اپنے آپکو دہرایا اس دفعہ ایسا ہی ہوا کہ میری عیاشیوں کی نذر میرا بچہ ہوا۔

اسکو ایک ہفتہ سے بخار تھا اور میں اپنی مصروفیات میں گم سم رہا ،اس کو ”لوز موشن “ ہوئے اور وہ جسم میں پانی کی کمیابی کی وجہ ڈیہائی ڈریشن سے انتقال کر گیا۔اس دفعہ گھر واپسی پر والد نے میری اتنی کلاس لی کہ اس دفعہ شیطان کی بھی ماں مر گئی۔ میں نے سچی توبہ کی اور بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہو گیا۔
میں نے داڑھی رکھ لی اور باقاعدگی سے نماز پڑھنا شروع کردی اپنی ساری توجہ گھر پر دینا شروع کر دی۔

فجر کی نماز پڑھ کے گاڑی لیکر نکلتا اور اچھے بچوں کی طرح مغرب کی نماز گھر آکر پڑھتا۔اپنے والد کی ہر ضرورت پوری کرتا اور بیوی بچے کی ہر فرمائش کر سر تسلیم خم کرتا۔
زرداری دور میں پٹرول کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے گاڑی چلانے میں نقصان ہونا شروع ہو گیا۔گاڑی سے بچت بہت کم ہوتی،گھر اور گاڑی کے اخراجات زیادہ ہونے لگے۔

میں نے ایک دوست کی مدد سے ایک ایجنٹ سے رابطہ کرکے سعودی عرب بطور ڈرائیور جانے کا اخراجات کا پتہ کیا تو اس نے کہا کہ ڈھائی لاکھ خرچہ آئیگا۔میں ایک شوروم پر گیا اور چار لاکھ کا کیری ڈبہ سیل آؤٹ کر دیا۔ڈھائی لاکھ ایجنٹ کو پکڑایااور باہر جانے کی تیاری پکڑ لی۔ایک دن ایجنٹ کا فون آیا کہ” آپ کا پاسپورٹ اور ویزہ تیار ہے ۔سعودیہ میں آپ نے ایک کفیل کی گاڑی چلانی ہے،رہائش میڈیکل فری ہوگاور تنخواہ پاکستانی پچاس ہزار روپیہ ماہوا ر ہو گی“۔


میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ حامی بھری اور گاڑی سیل ہونے کے بعد بچے کھچے پیسے والد کے ہاتھ دیئے،بیوی کو مطمئن کیا کہ میں ہر ماہ خرچہ بھیجتا رہونگا اور مستقبل کے سہانے خواب لئے اگلے دن ائرپورٹ جا پہنچا۔میں ائر پورٹ پر پہنچا تو وہاں ایک عربی لباس میں طویل قامت عربی نے میرا استقبال کیا،اس نے مجھ سے پاسپورٹ لے لیا اور ایک لمبی سی گاڑی میں بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔

گاڑی کا ڈرائیور شکل سے پاکستانی لگتا تھا۔گاڑی پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ریت کے صحرا میں جا پہنچی۔یہاں ایک دفعہ پھر قسمت نے میرے ساتھ دھوکا کیا ۔وہاں جا کے پاکستانی ڈرائیور نے بتایا کہ میں یہاں اس کفیل کا مالی بن کے آیا ہوں اور مجھے یہاں اس کے گارڈن کی نگہبانی کرنی ہے۔مجھے یہ بات سن کر بہت غصہ آیااور مایوسی بھی۔میں نے اس ڈرائیو ر سے صاف صاف بات کہ آپ اس کفیل سے کہو کہ مجھے پاکستان سے اس کی گاڑی کا ڈرائیور بتا کر بھیجا گیا ہے اور اگر یہاں مالی بننے کے لئے آنا ہوتا تو اس کی کیا ضرورت تھی میں یہ کام پاکستان بھی کر سکتا تھا۔


میرے سامنے اگلے دن پاکستانی ڈرائیور نے عربی کفیل کو ٹوٹی پھوٹی عربی میں میرا موقف واضح کر دیا۔اس پر عربی کفیل نے پاکستانی ایجنٹ کا نمبر ملایا اور اس کی بہت زیادہ بے عزتی کہ اور اسے کہا کہ اس نے اس کے ساتھ اور میرے ساتھ فراڈ کیوں کیا ہے؟اس کے بعد اس نے پاکستانی ڈرائیور کو کچھ کہا اور چل دیا۔
بعد میں پاکستانی ڈرائیو ر نے مجھے بتایا کہ اس نے تمہیں آزاد کر دیا اور عربی نے تمہیں بطور مالی خرید لیا تھا لیکن پاکستانی ایجنٹ کی غلط بیانی پر اور تمہارے سچ بولنے پر اس نے ایسا کیا ہے۔

یہ بہت متقی کفیل ہے۔اب تم تیاری پکڑ لو اور صبح تمہیں یہ پاسپورٹ اور پیسے دیگا تم مدینہ جا کے اپنا آزاد ویزہ لگوا لو وہاں یہ تمہاری ہر مدد کریگا۔جب تمہیں بطور ڈرائیور جاب مل جائے تو اس کے بعد یہ تم سے رابطہ نہیں رکھے گا۔
میں دو تین ہفتہ پریشان حال مدینہ پاسپورٹ پر آزاد ویزہ لگوانے کے لئے پھرتا رہا ۔دن رات نماز پڑھ کے دعائیں مانگتا رہا۔

ایک دو دفعہ عربی کفیل بھی وہاں آیا اوراس کے بعد مجھے اپنے ایک اور دوست کفیل کے پاس بطور ڈرائیور بھرتی بھی کر وادیا۔اس کے بعد میرے اوپر اللہ تعالیٰ کاکرم ہو گیا۔اب میں وہاں
مکمل سیٹ ہوں۔میرا بیٹا شہر کے اچھے سکول میں میں پڑھ ررہا ہے ۔خود کئی دفعہ حج پڑھ چکا ہوں،والد بیوی بچے کو حج کی سعادت میری وجہ سے نصیب ہوئی ہے۔میرا یہی ایمان ہے کہ میری سچی توبہ نے مجھے سرخرو کر دیا ہے۔

اب اللہ تعالی سے یہی خواہش کہ میرے دور گناہ میں میری غفلت سے مرنے والی والدہ اور بچے سے بھی روزقیامت معافی مل جائے ورنہ اس دنیاوی کامیابی کا کوئی فائدہ نہیں۔میں اس وقت ہر چیز خرید سکتا ہوں لیکن اپنی والدہ اور مرحوم بچے کو واپس نہیں لا سکتا“
نصیر کی آنکھوں سے بہنے والے سفید سفید آنسواس کی داڑھی کو مزید خوبصورت بنا رہے تھے۔میں نے سرجھکایا اور اپنے دائیں کندھے کے فرشتے کا کام بڑھانے لئے عزم عالیشان کیا کہ میں بھی عوام کو راہ راست پر لانے کے لئے اور خود کو قیامت کے دن سرخروکرنے کے لئے نصیر کی طرح کوئی نماز مِس نہیں کرونگا،اپنے خاندان کی کفالت کے لئے جدوجہد کرونگا اور حتی الوسیع حلال رزق کے لئے اپنے جسم، اپنے ہاتھ اور دماغ کو استعمال کرونگا۔

لالچ سے کوسوں دور رہونگاتاکہ مجھے کہیں خدانخواستہ کبھی پچھتاوا نہ ہو۔ انشا ء اللہ۔قارئین آپ بھی نصیر کی طرح شیطان کے چنگل سے باز آجائیں کہیں پھچتاوا خدانخواستہ مقدر نہ بن جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :