بلا ثبوت الزامات

جمعہ 25 اپریل 2014

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

سچ تو یہ ہے کہ جس کسی کے دل سے نظریہ پاکستان گیا وہ ہر کام سے گیا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ دیس اس لئے دیا تھا کہ ہم سب مسلمان مل کر اس دیس کی ترقی میں معاون ہوں،مزید یہ کہ ملک و قوم کی خوشحالی کے لئے ہم سارے حسب و نسب سے بالا تر ہو جا ئیں۔قومیت کو ایک طرف چھوڑ دیں،سندھی ،بلوچی،پٹھان ،کشمیری اور پٹھان کی پٹیاں دل سے ہٹا کر اس پر پاکستانیت کی چھاپ لگا دیں۔

حامد میر ہمارے ملک کے اہم ترین انسانوں میں سے ہیں ،وہ نہ صرف تجربہ کار،ذہین اورپڑھے لکھے دانشور ،کالم نویس اور اینکر پرسن ہیں بلکہ احقر جیسے تمام پاکستانی لکھاریوں اور عوام کے دل میں بھی بستے ہیں۔احقر نے 1997سے کالم نویسی کا آغاز کیا اور اس دورسے ہی ہمارا مشاہد ہے کہ حامد میر کواس وقت بھی عوام کی کثیر تعداد شوق سے پڑھا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

اللہ تعالیٰ حامد میر کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور ہماری دعا ہے کہ وہ جلد از جلد میڈیاپر دوبارہ ہشاش بشاش دکھائی دیں۔

آمین
جہاں تک معاملہ جیو کا ہے۔انہوں نے حامد میرکے مسئلے کو کیش کرانے کی غلط کوشش کی۔حکومت،فوج اور اینٹلی جنس میں سے کوئی بھی قوم و ملک کے مفاد کے خلاف قدم اٹھانا ناپسند کرتے ہیں۔کسی بھی پاکستانی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فوج ،حکومت یا اینٹلی جنس پر خواہ مخواہ کے الزامات ٹھونس کر اسے بدنام کرے۔ہم سارے لکھنے والے کرپٹ سیاستدانوں،کرپٹ اداروں یا کرپٹ لوگوں کے خلاف ثبوت کے ساتھ لکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سارے نظریہ پاکستان کی اساس کے خلاف یعنی فوج اور اینٹلی جنس اداروں کے خلاف ہرزہ رسائی کریں۔

جنگ یا جیو گروپ کے پاس اگر کوئی ٹھوس ثبوت ہوتا تو یقینا آج لوگ یوں جیو نیوز کو گناہ گار تصور نہ کرتے۔
میڈیا کا اصل کام یہی ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے نظریات کی پاسداری کرتے ہوئے نہ صرف بہتر رپورٹنگ کرے بلکہ رائے عامہ کے پھیلاؤ میں بھی ملک و قوم کے جذبات کا خیال رکھے۔میڈیا جب تک درست زاویے پر اپنی خدمات سر انجام نہیں دیگا تب تک ملک و قوم کے حالات بدلنے کی امید رکھنا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔

میڈیا میں سمت کا تعین ہمیشہ ثبوت سے ہی ہوتا ہے ثبوت کے بغیر نہ صرف سمت غلط ہوجاتی ہے بلکہ کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔حامد میر پر قاتلانہ حملے کا افسوس ساری قوم ہے لیکن حقیقت میں اس سارے واقعے کے بعد اگر ایمانداری سے مشاہدہ کیا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔اس سارے معاملے کے بعد جیو نے نہایت ہی ڈھٹائی سے آئی ایس آئی پر چڑھائی کی ناکام کوشش کی۔

اس کے بعد کئی ایک چینلز نے جیو کی آڑ میں حکومت کو بھی جیو گروپ ثابت کرنے کی ہر نا ممکن کوشش کی تاکہ حکومت کا فوج اور آئی ایس سے اختلاف پیدا کیا جائے۔لیکن دیکھا جائے تو حکومت نے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کوئی ایسا بیان نہیں دیا۔
فوج اور آئی ایس آئی دونوں پاکستان کے معتبر ادارے ہیں۔حکومت بھی عوام کی منتخب کردہ ادارہ ہے۔کسی بھی فرد واحد یا میڈیا کے کسی ادارے کو کوئی ایسا حق حاصل نہیں کہ وہ حکومت،فوج اور آئی ایس آئی کو قلم یا لفظوں سے ”ٹارگٹ کلنگ “ کرے۔

مذکورہ نجی گروپ کی غلط لابی کی وجہ سے نہ صرف جیوکو نقصان ہوا بلکہ اس وجہ سے پمرا کو بھی حرکت میں آنا پڑا۔اب حالا ت یہ ہیں کہ پیمرا نے جیو ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو آفسیر کو ذاتی طور پر 6 مئی کو پیمرا ہیڈاکواٹرز میں وضاحت کیلئے طلب کر لیا۔اب صحافی بھی دو گروپس میں بٹ گئے ہیں۔ایک گروپ جیو کو سپورٹ کر رہاہے جبکہ دوسرا گروپ احقر کی طرح حامد میر پر قاتلانہ حملے کی سخت مذمت کرتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ مذمت جیو کی طرف سے آئی ایس آئی کو بغیر ثبوت کے ملوث کرنے پر کرتا ہے۔


حامد میر پر ہونے والے جان لیوا حملے کا ہر کسی کو بہت زیادہ دکھ ہے۔ حامد میر کے ساتھ وزیراعظم پاکستان،پاکستان فوج(آئی ایس پی آر) اور ڈی جی آئی ایس آئی سب نے نہایت ہمدردی کا مظاہرہ کیاہے اس کے باوجود جیو گروپ کی طرف اس قسم کا پاکستان کے خلاف نظریاتی بیان اور رویہ سب کو نا قابل قبول ہے۔ہم سارے جس ملک میں رہتے ہیں،ہم جس فوج کے شیلٹر میں پر سکون نیند پوری کرتے ہیں اور ہم جس آئی ایس آئی کی وجہ سے دہشت گردوں کی کمر توڑ رہے ہیں اسی کے خلاف بیان دینا نہایت افسوسناک ہے۔

ہاں اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ہم سارے ڈکٹیٹر شپ یا ڈکٹیٹر کے خلاف بیان بازی میں آزاد ہیں ،ہم سارے کرپٹ سیاستدان یا کرپٹ افراد کے خلاف بیان دینے میں آزاد ہیں لیکن فرد واحد یا چند ایک افراد کی وجہ سے پورے کے پورے اداروں کو رگڑا لگانا نہایت ہی افسوس ناک ہے۔
ہم سارے پاکستانی یہ بھی نہیں چاہتے کہ جیو کو بند کر دیا جائے یا اس پر کوئی زیادہ سخت پابندی لگائی جائے لیکن ہم سارے محب وطن پاکستانی یہ ضرور چاہیں گے کہ ایسی روایت بنائی جائے کہ آئندہ کوئی بھی پاکستان فوج،آئی ایس آئی یا کسی بھی پاکستانی معتبر ادارے کو خواہ مخواہ بدنام نہ کرے۔

کوئی صحافی ہو۔وکیل ہویا کوئی احقر کی طرح عام فردسب کے لئے بہت ضروری ہے کہ نظریہ پاکستان کی پاسداری ضرور کریں۔وکلاء کوئٹہ میں پولیس والوں یا عوام کوماریں پیٹیں یاصحافی کسی بھی معتبر فرد کی طرف جوتے پھینکیں یا کہاں کی تعلیم ہے یہ کونسی جرنلزم ہے یا کونسی روایت ہے؟۔بے ایمانی،دھوکہ دہی ،بلیک میلنگ اور قتل و غارت کسی بھی فرد یا ادارے کو سخت ناپسند ہیں۔

قانون فطرت ہے کہ فرد واحد یا تمام افراد کے بنیادی حقوق کی ہر گز خلاف ورزی نہ کی جائے۔سب کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔اللہ تعالیٰ حامد میر کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ حامد میر پر گولیاں برسانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے اور اللہ تعالیٰ آئی ایس آئی پر بغیرثبوت کے پوائنٹ سکورنگ کرنے والوں کو ہدایت دے۔آمین۔


ہم سارے پاکستانی عوام،سیاستدان،پولیس والے،انتظامیہ،مقننہ،تاجر،دکاندار،صحافی،پروفیسر اور ملازم جب تک اتفاق سے مل کی ترقی کے لئے جوق در جوق اکٹھے نہیں ہونگے تب تک یہ ملک نہ تو ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی ہم لوگ سیاسی،معاشی اور صنعتی لحاظ سے کسی بھی دوسری قوم پچھاڑ نہیں سکتے۔اخبارات کا لفظوں سے پیٹ بھرنے یا ٹی وی پر گھنٹہ گھنٹہ بے مقصد گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں۔بھائی جان گستاخی معاف ہر کوئی اپنا اپنا درست کردار اپنائے اور اپنے آپکو منوائے ورنہ یہاں ہر روز حامد میر جیسے اچھے انسانوں پر حملے ہونگے ، ہر روز بلاثبوت معتبر اداروں پر الزامات لگیں گے اور گناہگار دندناتے پھریں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :