ٹیلنٹ کی قدرکریں

پیر 25 مئی 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتاہے کہ جہاں قابل قدر سہولیات دستیاب نہ ہونے کے باوجود یہا ں کے رہنے والے اپنے زور بازو ،اللہ کی عطاکردہ صلاحیتوں کی بدولت اپنا نام پیداکیا۔شعبہ چاہے کوئی بھی ہو مگریہاں کے بچوں،بچیوں نے اپنا آپ منوایا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ہرسال اس دھرتی سے ان چنیدہ اورباصلاحیت بچے بچوں کے نتائج دیکھے جاسکتے ہیں جنہیں بیرونی دنیا کے تعلیمی ادارے بڑی خوشی سے ہی اپنے ہاں داخلہ دیتے ہیں۔

اب اگر صرف تعلیمی شعبہ کو ہی دیکھ لیاجائے تو ثابت ہوتا ہے کہ ہردوتین سال بعد بدلتے تعلیمی نظام کے باوجود یہاں کے بچوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپناآ پ منوایا ہے ۔دوسری جانب یہاں کے تعلیمی معیار کا اگر جائزہ لیاجائے تو کئی طرح کے سسٹم میں گھرا تعلیمی نظام غربت امارت کی واضح عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔

(جاری ہے)

ایسے ماحول میں اگر کسی غریب گھرانے کابچہ امارت کے نشان زدہ تعلیمی اداروں کے بڑے گھرانوں والے بچوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے نکل جائے تو یقینا اسے ”نعمت خداوندی “ ہی تصورکیاجائیگا۔

یہ بات اس امر کی عکاس ہے کہ ہمارے ہاں صلاحیتوں کی کمی نہیں مگر باعث افسوس فعل یہ ہے کہ ہم نے اس ٹیلنٹ کی قدر نہیں ۔ اگر حکومتی سطح پر دیکھاجائے تو کہنے کو حکومتیں بچوں کی حوصلہ افزائی کے نام پر لیپ ٹاپ بھی دے دیتی ہیں، سولر لیمپ بھی انعام میں دیاجاتاہے اورکئی ایسی اشیا بھی ”احسان“ سمجھ کر وار دی جاتی ہیں مگر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ بیرونی دنیا کی امداد پر چلنے والے تعلیمی نظام اتناامیر ہوگیا کہ وہ انعامات سے نوازتا رہے۔

حقیقت یہی ہے کہ یہ سبھی کچھ ملنے والی بیرونی امداد سے کیاجارہا ہے اور اس معاملے میں کس کو کتنا فائدہ پہنچا یہ الگ داستان ہے؟؟ معاملہ لیپ ٹاپ کا ہویا سولرلیمپ کا یا پھر میڈلز کی بات ہو ، یقینا بہت سوں کی دال گلتی ہی نظرآتی ہے
خیرآج سوشل میڈیا پرگردش کرتی ایک تصویر پر نظرڈالی جائے تو یقینا صلاحیتوں کی قدر دانی کے دعویداروں کے منہ پر طمانچہ واضح دکھائی دیتا ہے۔

اس تصویر میں اوکاڑہ کے نواحی علاقہ نہراں والی کا رہائشی نوید کسی بڑے ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھا نظرآرہا ہے جبکہ تصویر میں پینٹ کوٹ میں ملبو س اہم سرکاری کارندے اورنسبتاً اچھے کپڑوں ،جوتوں والے طلبہ کرسیوں پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں لیکن نوید کے پاؤں میں چونکہ ہوائی چپل ہے اورکپڑے بھی پرانے ہیں اس لئے اسے منتظمین نے سیڑھیوں پر ہی لابٹھایا ۔

شاید یہ اس کے پیچھے یہ پیغام بھی چھپاہوا تھا کہ ”ایک غریب گھرانے کے بچے کو کیاپڑی ہے کہ وہ محنت کرکے بورڈ میں نمایاں پوزیشن لے “
یوں بھی دیہی علاقوں اورچھوٹے شہروں کے بچے جب پوزیشن کے بعد بڑے شہروں میں مقابلے کیلئے یا انعامات لینے کیلئے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اس کاعملی نمونہ نوید کی صورت سامنے ہے۔ یہ رویہ صرف نصابی سرگرمیوں تک محدود نہیں رہابلکہ ہم نصابی سرگرمیوں کے معاملے میں یہ تفریق واضح نظر آتی ہے۔

ہمارے جاننے والے ایک سکول ماسٹر نے بتایا کہ ہم نصابی سرگرمیوں میں ضلعی سطح پر پوزیشن لینے والے طلبہ وطالبات کو لیکر وہ ڈویژنل ہیڈکوارٹرپہنچے، مقابلہ میں تقریباً سبھی نجی اداروں کے طلبہ موجودتھے اوران کے لباس کی چمک دمک ان کی مالی پوزیشن کی بھی عکاس تھی ۔ مگر یہ ماسٹر صاحب ایک سرکاری تعلیمی ادارہ میں پڑھاتے ہیں جس میں زیادہ تعداد غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ہے۔

خیر وہ ایک مقابلہ میں دوئم پوزیشن لینے والے ایک طالبعلم کو بھی لے گئے تھے۔ اس طالبعلم کوپہلی نظر میں دیکھ کر ہرشخص بخوبی اندازہ لگاسکتا تھا کہ اس کی مالی حیثیت کیا ہے۔ وہ ایک تندوری کا بیٹا تھا جو دن رات محنت مزدوری کرکے جو کچھ کماتا اپنی اولاد پرلگادیتا ۔ خیر وہ ایک ٹھنڈے ٹھار ہال میں پہنچے جہاں کی چمک دمک کی نرالی تھی۔ منتظمین کارویہ اس سرکاری سکول ٹیچر سے جو تھا سوتھا لیکن انہوں نے اس غریب طالبعلم سے جس تضحیک آمیز رویہ کامظاہرہ کیا وہ بذات رلادینے والا تھا۔

مقابلہ اختتام کو پہنچا نتائج کیلئے بھاگ دوڑ جاری تھی ماسٹرصاحب کو یقین تھا کہ ان کا وہ غریب طالبعلم اول پوزیشن نہ لے سکاتو دوسرے نمبرپرضرور آئیگا مگر جب نتائج سامنے آئے تو ساری کی ساری پوزیشنیں نجی تعلیمی اداروں کو بانٹ دی گئی تھیں ان میں وہ مقرر طلبہ بھی شامل تھے جو دوران تقریر کئی باربھولے ،کسی کا لہجہ درست نہ تھا کسی کا تلفظ مگر پوزیشن لے گئے۔

تقریب کے اختتام پر ماسٹر صاحب نے ایک منتظم کو پکڑ ا اور شکوہ کیا کہ آ پ نے اس غریب بچے کا حق مارا ہے کم از کم اسے اپنا حق تو ملناچاہئے تھا۔ منتظم کاجواب بھی حیران کن تھا ۔اس نے غریب طالبعلم کی طرف ٹیڑھی نظر دیکھتے ہوئے کہا ”اگر آپ کو یقین ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا ہونی تھی تو آپ آئے ہی کیوں؟؟“
یہ طرز عمل حکومتی سطح پر نہیں بلکہ حکومت کی ناک تلے ضرور انجام پارہا ہے۔

ایسا کچھ کسی ایک طالبعلم کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہر اس طالبعلم کے ساتھ ہوتاہے جو باصلاحت ہونے کے باوجود غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے یا پھر اس کاتعلق کسی بھی پسماندہ علاقہ سے ہو
اب اگرا س بڑے ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھے نوید کا ذکر ہوجائے ، کہاجارہاہے کہ اس تقریب کے مہمان خصوصی پنجاب کے پردھان منتری یعنی وزیراعلیٰ شہباز شریف تھے ۔

چونکہ یہ طالبعلم بالکل سامنے ہی فرنٹ سیڑھیوں پرموجودتھا ایسے میں وزیراعلیٰ سمیت منتظمین کی نظر تو پڑنالازمی بات تھی مگر ایسا نہیں ہواورچونکہ یہ تصویر گزشتہ برس کی ہے تو اس دوران میں نہ تو کسی حکومتی وزیرمشیر یا کارپردان محکمہ تعلیم نے اس تصویر کی حیثیت کو جھٹلایا اور نہ ہی منتظمین کی طرف سے اپنے روئیے پر شرمندگی ظاہر کی گئی ۔جو یقینا ”چوری اورسینہ زوری “ کی عملی مثال ہے
باتیں بے شمار ہیں ،کئی سچے اورآنکھوں دیکھے واقعات کی بابت بھی لکھاجاسکتا ہے لیکن بات وہی کہ ہمارے لکھنے سے نہ تو کچھ بدل سکے اورنہ ہی کسی نے بدلنے کاسوچا ہے۔سوچا بھی کیسے جاسکتاہے کہ جن کی دال گل رہی ہو انہیں کیاپڑی ہے کہ وہ بدلنے کاسوچیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :