آزاد پنچھی، ن لیگ ،طاقت کازعم

جمعہ 11 دسمبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

بحکم عدالتاں ،بلدیاتی انتخابات ہوناتھے، سو ہوگئے، پنجاب میں کامیابی حسب توقع ن لیگ کی ہو گئی،پہلے مرحلے میں بعض مقامات پر مسلم لیگ نے ”حزیمت“ سے سبق یوں سیکھاکہ باقی دونوں مراحل میں وہ رکاوٹیں حائل ہی نہ ہوسکیں، بعض سیاسی ماہرین اور ٹی وی اینکرز کاخیال ہے کہ یہ مسلم لیگ کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے،تینوں مراحل میں قیامت خیز کامیابی حاصل کرنا یقینا ن لیگ اور اس کے قائدین کیلئے قابل فخر ہوگا مگر ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ 2000 اور2005 کے پرویز مشرفی بلدیاتی انتخابات میں (تقریباً) یہی چہرے سامنے آئے تھے ا س وقت مسلم لیگ ق ملک کے طول وعرض میں دندناتی پھرتی تھی، اگر سیاسی ماہرین، خوشامد پسند ٹی وی اینکرز کی بات کو مان لیاجائے کہ 2015 کے بلدیاتی انتخابات مسلم لیگ کی صوبہ بھر میں مقبولیت کی علامت بن کر سامنے آئے ہیں تو پھر یہ بھی ماننا ہوگا کہ پرویز مشرف کے دور میں ہونیوالے دو بلدیاتی انتخابات مسلم لیگ ق کی کامیابی ،مقبولیت کی دلیل تھے ،یوں بھی ان دونوں انتخابات میں ق لیگ نے صرف پنجاب نہیں بلکہ تقریباً پورا ملک فتح کیاتھا، لیکن آج 10سال بعد صورتحال کچھ مختلف ہے کہ 2005تک بلدیاتی حلقوں میں اپنی کامیابی ،مقبولیت کے جھنڈے گاڑھنے والی مسلم لیگ ق اب خال خال ہی دکھائی دیتی ہے، گویا یہ بات طے ہوچکی کہ خزاں کاموسم آتے ہی درخت اجڑتے دیکھ کر پرندے پھلتے پھولتے درختوں کارخ کرجاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یعنی ق لیگ کا گلشن اجڑاتو ن لیگ آباد ہوگئی اورپھرآج کل اس درخت پردائیں بائیں اوپرنیچے ،ہرسو پھل پھول سونے سونے لگنے لگے ہیں تو ظاہر ہے کہ موسموں کے مطابق سفرکرنے والوں نے ن لیگی درخت کی ٹہنیوں پر گھونسلے بنانے شروع کردیئے ہیں۔
اب دیکھئے ن لیگی قیادت میں شاداں ہے کہ انہوں نے پنجاب میں ایک بارپھربرتری ثابت کردی ،لے دے کے دو ایک اضلاع میں آزاد پنچھی پھڑپھڑارہے ہیں لیکن ان پرندوں کو قید کرنے کیلئے بھی ن لیگی جال تیارکیاجارہاہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ پنچھی دانہ دنکا پر ہی جال میں پھنسے ہیں یا پھر ان کیلئے بطور خاص کوئی دوسرا ”لاوا“ لگایاجائیگا۔


یوں بھی آزاد فضاؤں میں اڑتے پھرتے پنچھی جب زمین کی طرف دیکھتے ہیں توانہیں احساس ہوتا ہے کہ سبھی کچھ وہی ہیں ان کے سوا کچھ بھی نہیں،گویا انہیں اپنے پروں پر ناز ہوتاہے لیکن یہ ناز، یہ انداز جال میں پھنستے ہی ہوا ہوجاتاہے ،خیر ن لیگی جال تیارکیاجاچکا ،دانہ دنکاڈالنے کاکام چھوٹے شریف کے ذمہ ہے منجھلے شریف کے ہونہار سپوت نے پنجاب کے ن لیگیوں کو پیچھے لگارکھاہے ،ہرسو اب ایک ہی صدا سنائی دے رہی ہے ”چیئرمین ، چیئرمین“ کہنے کو صوبائی حکومت ا س معاملے میں غیر جانبدار ہے مگر انتظامیہ کو ٹاسک ضرور سونپنے کی تیاری جاری ہے ،مگر ایک عجیب اتفاق بھی سامنے ہے،اگرتھوڑاساماضی کے اوراق کو کھنگال لیتے ہیں
1990 میں مسلم لیگ ہی مسند اقتدار پرفائز تھی، وزیراعظم نوازشریف اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ملک بھر میں اپنی ”کرنی“ میں مصروف تھے ،اسی زعم میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ، جن جن اضلاع میں ن لیگ کو شکست فاش کاسامنا کرناپڑاوہاں انتظامیہ کے توسط کے ممبران کے اغوا، زورا زوری،د ھاندلی کرکے مرضی کے چیئرمین بنالئے گئے مگر انجام کیاہوا؟ اپنے ہی بنائے ہوئے صدراسحاق خان نے انہیں اپنے لاؤلشکر سمیت گھربھیج دیا، پھر 1998 کازمانہ آتا ہے ن لیگ ہی بلدیاتی انتخابات کراتی ہے مگراب کی بار زورا زوری ، دھاندلی ،دھونس کی وہ وہ مثالیں سامنے آتی ہیں جس کی مثال نہ تو ماضی میں ملتی ہے اورنہ ہی آنیوالادور شاید پیش کرسکے پھر کیا ہوا انتظامیہ کے زور پر بننے والے چیئرمین محض چندماہ ہی گزارسکے اور پھر نوازشریف کی جدہ روانگی سے قبل ہی انہیں اپنے گھروں میں بٹھادیاگیا اب ایک بارپھر یعنی 2015 کے انتخابات میں وہی صورتحال درپیش ہے بعض سیاسی ماہرین کاخیال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائدین اقتدا رمیں الگ اوراپوزیشن میں علیحدہ روئیے کے حامل ہوتے ہیں ان کے رویوں کایہ فرق ہرجگہ نظرآتا ہے اپوزیشن کے دور میں جن باتوں پر صاحبان اقتدار کے کانوں میں”نصیحتیں “ ٹھونسی جاتی ہیں وہی افعال ،وہی باتیں ن لیگ کے دو ر میں ”ثواب“ کی حد تک جائزہوجاتی ہیں۔


اسے پاکستان کی ستم ظریفی ہی سمجھاجائیگا کہ جمہوریت جمہوریت کاراگ الاپنے والی بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے سیاسی نرسری یعنی بلدیاتی انتخابات پر کبھی بھی سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کیا ماہرین کاخیال یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی 1988 سے 2013 تک مختلف ادوار حکومت میں بلدیاتی انتخابات کرالیتی تو آج اسے یوں کارکنان ڈھونڈنا نہ پڑتے ،اسے بینظیربھٹو مرحومہ کی غلطی تصورکیاجائے یا ان کی پارٹی پالیسی کاخاصا ہی یہی تھا کہ اقتدار نچلی سطح پر منتقل نہ کیاجائے۔

دوسری بات یہ کہ ملک پر مسلط ہونیوالے آمروں نے بلدیاتی انتخابات کرائے بھی تو اپنی مرضی کے نتائج کیلئے اورپھر اپنے عرصہ اقتدار کو طول دینے کیلئے مرضی کے ضلعی حکمران بنادئیے ۔
صاحبو! اب اقتدا رکی منتقلی کا مرحلہ شروع ہونے جارہاہے ، پرویز مشرف کا ضلعی نظام حکومت اپنا بوریا بستر لپیٹ کر گھرکو بھیج دیاگیا ہے ، ضلعی ایگزیکٹو آفیسر بے اختیارہوچکے ہیں، مجسٹریٹی نظام کی بحالی کے حوالے سے کام تیزی سے جاری ہے، تاہم ایک بات پیش نظر رکھناہوگی مسٹرمیرٹ کے دور حکومت میں ہمیشہ ہی انتظامیہ عوام اور عوامی نمائندگان پر حاوی رہتی ہے جس کاشکوہ ہردور حکومت میں میاں صاحبان سے ممبران اسمبلی ،مسلم لیگی رہنماکرتے رہے مگر نہ تو صورتحال 1990 میں بدلی اورنہ ہی1996 میں تبدیلی آئی۔

یہ شکوے بڑھتے بڑھتے اب باقاعدہ مایوسی کی شکل میں ڈھل رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کا”ثور “ پھونکنے تک صورتحال میں کس حد تک تبدیلی آتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :