اللہ !کراچی پر رحم فرما

اتوار 28 جون 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کیاخوب فرماتے ہیں ہمارے وفاقی وزیرعابد شیر علی،ان کے منہ سے نکلے جملے ناواقفیت کی علامت سمجھے جائیں یا پھرپرغرور انداز حاکمیت،فرماتے ہیں ”اگرکوئی گرمی یاگھٹن سے مرجائے تو حکومت ذمہ دار نہیں ہی“ بات تو ان کی اپنے تئیں درست ہے کہ اٹھارہ انیس کروڑ عوام میں حکومت کس کس کی دیکھ بھال کرے، چند درجن شریف گھرانے ہی تو اصل انسان ہیں اورباقی․․․․․یقینا حالات تو یہی ثابت کررہے ہیں کہ باقی کروڑوں جانورنما انسانوں کا اصبطل بن چکا ہے یہ پاکستان
صاحبو! کراچی میں گرمی، حبس سے مرنیوالوں کی تعداداب گنتی سے باہرہوتی جارہی ہے،یہ ایک سانحہ ہے جس کا دکھ پوری قوم محسوس کررہی ہے مگر ایک طبقہ ایسا ہے جس کے نزدیک ایک آدمی مرے یا سینکڑوں، ایک برابر ہیں، یہ بھی درست ہے موسمی تغیرات پر انسان کا اختیار کہاں؟ یہ تو خالق کل کی منشاکے مطابق آتے جاتے اوررنگ بدلتے ہیں لیکن کچھ اختیار حکومتوں کے پاس بھی ہوتے ہیں کہ زمین پر ان حکمرانوں کوہی لوگوں کامائی باپ مقرر کیاجاتا ہے، یہ سب ودیعت خداوندی ہی ہے لیکن اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ حکمران خود توچین کی نیند سوتا رہے اوررعایا یونہی تڑپ تڑپ کر مرجائے اورپھر سوال کیاجائے کہ ”اگرکوئی مرجائے تو ذمہ دار حکومت نہیں ہوسکتی“
عابد شیر علی بڑے فخر سے اعلان فرماتے ہونگے کہ وہ مسلمان ہیں، یقینا ان کا ایمان کامل نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات پر بھی ہوگاوہ آل واصحاب رسول پر بھی پختہ ایمان رکھتے ہونگے۔

(جاری ہے)

انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ ایک مسلمان ملک کے حاکم کے فرائض کیاہوتے ہیں(یہ فرائض یوں تو ہرمسلم غیر مسلم ملک کے حاکم پر لازم ہوتے ہیں)انہیں وہ فرمان عالی شان بھی یاد ہوگا جو ایک عظیم اسلامی ریاست کے عظیم حکمران (مگر حقیقی خادم) جناب حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے نکلا تھا۔ آپ  نے فرمایاتھا کہ ”دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھوکا پیاسا مرجائے تو عمرجواب دہ ہوگا“ مانا کہ دور بدل گیا ہے لیکن اخلاقیات وہی ہیں جو چودہ سوسال قبل معین کی گئیں اورآج چودہ سوسال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی انہیں محترم جانا جاتا ہے کہ وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بدولت ترویج پائیں۔

پھر اس عظیم ترین ہستی کورتبہ ملابھی تو ”رحمت اللعالمین“ کا ،نہ کہ انہیں صرف مسلمانوں کیلئے کہاگیا ۔وہ پورے عالمین کیلئے رحمت ہی ہیں۔ ہم انہی عظیم ترین پیغمبرکے ماننے والے ہیں، یقینا عابد شیر علی کو بھی ادراک ہوگا کہ اس عظیم ترین ہستی کے کیافرامین ہیں، کیا ترجیحات رہیں رعایاکیلئے، پھر خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق  کا وہ فرمان کون بھلاسکتاہے ”جو تنخواہ مزدور کی ہوگی وہی میں لوں گا اور جس دن میں سمجھوں گا کہ اس تنخواہ میں میرا گزارہ نہیں ہوسکتاتو میں مزدور کی تنخواہ بھی بڑھادونگا“ یہ فرمان عالی شان اس وقت جاری ہوتا ہے جب آپ خلیفہ بنے
وفاقی وزیر موصوف سے پوچھاجاسکتا ہے کہ ان فرامین کی روشنی میں دیکھنے کے بعد وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں کی موت کے ذمہ دار حکمران نہیں ہوتے۔

حکمرانوں کو اللہ کریم نے رعایا کیلئے”مائی باپ“ مقرر کیاگویا وہ ان کے دکھ سکھ، آرام سکون کے نگران بھی ہوتے ہیں، ان کا کام صرف خود سکون کی نیند سوکر رعایاکو بھوکا پیاسا رکھنا نہیں ہوتا، ان کا کام صرف رعایا کی رگوں سے ٹیکسوں کے نام پر خون کا آخری قطرہ تک نچوڑکر اپنے اخراجات پورے کرناہی نہیں ہوتا انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا بھی ریاست اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔


وائے افسوس کہ جس فلاحی ریاست کاتصور بانی اسلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اوران کے رفقائے کار نے پیش کیا اس پر آج کوئی بھی مسلمان ملک عمل پیرا نہیں اسے ستم ظریفی ہی تصور کیاجائیگا کہ دنیا کے پچپن اسلامی ممالک کے حاکمین رعایاکے حوالے سے تقریباً وہی تصورات رکھتے ہیں جن کا اظہار پاکستان کے پھرتیلے وفاقی وزیر عابد شیر چند روز قبل ٹیلی ویژن چینلوں پر کرچکے ہیں۔


مانا کہ اس وقت سندھ پر ن لیگ کا سایہ نہیں ہے مگر ان کی سیاسی کولیشن پارٹنر پیپلزپارٹی کی حاکمیت ضرور ہے مگر وائے افسوس کہ ایک ایسا شخص جو اسمبلی اجلاس میں بیٹھے بیٹھے سوجائے ،جسے ہرمشکل گھڑی میں سونے کے علاوہ کچھ کام نہیں اسے ہی سندھ کی باگ ڈور سنبھال دی گئی ہے۔ جو شخص تین چار گھنٹے کے اسمبلی اجلاس کے دوران سوتارہے اس سے کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ باقی اٹھارہ بیس گھنٹوں میں جاگ کر فرائض منصبی اداکرنے کی سوچتا ہوگا۔


تھر میں کئی معصوم بچوں کی اموات پر بھی ”بابائے سندھ “کی بے حسی کا یہی عالم تھا جو آج کراچی میں سینکڑوں لوگوں کے مرنے پر ہے، خداجانے ان کی زبان پر کیوں ایسے مواقع پر تالے لگ جاتے ہیں، میڈیا کی چیخ وپکار نے ان کے بہرے کانوں کے تالے تک نہیں کھولے۔ لگتا یہی ہے کہ ان کے دل پر بھی تالے ہی لگ چکے ہیں تبھی تو وہ کسی کادرد محسوس نہیں کرتے کسی کی آہ ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی، کراچی ،تھر میں گرنے والی بے گناہوں کی لاشیں ان کی آنکھوں میں نور نہ ہونے کی دلالت کرتی ہیں
یہ وہ نوحہ ہے جو ہرپاکستانی کی زبان پر ہے، آج پاکستان پھر لہو لہو ہے کیونکہ پاکستان کی شہ رگ میں سانحات پے درپے وقوع پذیرہورہے ہیں لیکن وائے افسوس کہ جنہیں اس مشکل گھڑی میں اپناکردار اداکرناتھا وہ تودامن جھٹک کر ہی دور جاکھڑے ہوئے ۔

پھر کس کو ذمہ دار اور والی سمجھ کر کہاجائے کہ زمین کے ناخداؤں نے تو کورا جواب دیدیا؟لے دے کے وہ خالق کل ہی رہ گئے جن کی منشا سے کراچی امتحان میں گھرا ہے اسی سے دست دعا دراز کرکے دعا کی جاسکتی ہے کہ ”اے بار الہہ!مانا ہم بہت گناہگار ہیں،خطاؤں سے دامن بھراہواہے لیکن تو غفور، رحیم ،کریم ہے ،تیری عنایات، تیری رحمت بے مثل وبے مثال ہے تو ہی رحم فرما کہ تیرے بندوں پر اب زمین تنگ ہونے لگی ہے،ہر روز ہی تیرے بندوں کو ہاتھوں سے قبروں میں اتارنے والے اب تھک گئے ،اے بارالہہٰ!تو ہی رحم فرما اپنا کرم کر“
آپ کی آمین ہی آپ کے درددل کی دلیل ہوگی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :