انقلاب یا اصلاحات

ہفتہ 12 جولائی 2014

Mubashir Mir

مبشر میر

ایک عجیب مخمصہ ہمیشہ دل میں سمایا رہتا ہے کہ ہمارا مستقبل کیسا ہوگا؟ خاص طور کسی روحانی شخصیت یا صاحب علم و حکمت سے اگر ملاقات ہوجائے تو اُن سے ایک ہی سوال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ پاکستانی قوم اور پاکستان کے مستقبل کے متعلق بتائیے۔ ان کا جواب کچھ بھی ہو لیکن ایک امید بھرے جواب کی توقع بھی ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ ایک ماہر علم و نجوم سے ملاقات ہوئی تو میں نے دریافت کیا کہ جناب یہ بتائیے لوگوں کو آپ زائچہ بنا کر یا ہاتھ کی لکیروں سے اندازہ لگا کر مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی قسمت تبدیل کرنے کیلئے تمھیں کیا کچھ کرنا چاہیے؟ کیا اچھا ہو اگر آپ نفرادی کی بجائے پوری قوم کی تقدیر میں بہتری کا کوئی نسخہ تجویز فرمادیں۔

ان کی مختلف تاویلیں مجھے مطمئن نہ کرسکیں۔

(جاری ہے)


انقلاب اور قوم کی تقدیر تبدیل کرنے کا نعرہ جب سے ہماری سماعتوں سے ٹکرایا ہے تو مجھے ماہر علم نجوم سے کی گئی گفتگو پھر سے یاد آنے لگی ہے۔
اپنی 67 سالہ مختصر تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کوئی انقلاب ناآشنا قوم نہیں ہیں بلکہ 1947ء میں قیام پاکستان ایک تاریخی انقلاب تھا ۔ جب عشاق کے قافلے، ستلج، راوی، بیاس اور چناب کے پانی کو اپنے لہو سے رنگین کرتے رہے اور دریاؤں کے بیلے اُن کی مقتل گاہیں بنادی گئیں، اس نسل سے پوچھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ انہوں نے زمین کا یہ ٹکڑا آگ و خون کا دریا عبور کرکے ہی حاصل کیا تھا۔

اگر سیاسی شعور کی بیداری کی بات کی جائے تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی مہم اس وقت کی نوجوان نسل (مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں) کیلئے ایک عظیم تجربہ تھا۔ لیکن افسوس کہ مینڈیٹ چرا کر عوامی فیصلے کی توہین کردی گئی۔ 1970ء کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سیاسی ماحول میں ہلچل پیدا کی۔ لیکن نتائج کے بعد ماحول تلخی سے دوچار ہوگیا کیونکہ ایک مرتبہ پھر مینڈیٹ تسلیم نہ کیا گیا ۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی پاکستانی قوم کیلئے وہ زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوگا اور ہم ایک دوسرے کو مورودِ الزام ٹھہراتے رہیں گے۔ آج بھی ہر کوئی اپنی پسند کے لوگوں کو بری الذمہ اور مخالف کو مجرم قرار دیتا ہے۔
اگر فوجی انقلابات کی بات کی جائے تو اس میں ہماری تاریخی غلطیاں سامنے آئیں گی ، جس میں سول و فوجی بیوروکریٹس اور سیاستدان برابر کے قصور وار نظر آتے ہیں۔

محلاتی سازشیں ایسے ایسے دن دکھاتی رہی ہیں جن پر تاریخ نادم ہے۔ اگرچہ فوجی حکمران بلدیاتی نظام قائم کرنے میں تاخیر نہیں کرتے تھے، معیشت بھی ان کے ادوار میں بہتر ہوئی ، لیکن معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے نقصانات بہت بڑے تھے، ان کے سیاسی فیصلوں نے بڑے بڑے بحرانوں کو جنم دیا ۔ جنرل ایوب خان کے طرز حکومت سے مشرقی پاکستان میں نفرت بڑھی اور جنرل یحییٰ خان کے دور میں شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش بنالیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کا پودا پروان چڑھا، قومیت کے نام پر معاشرہ تقسیم ہوا۔ اسلحہ اور منشیات کا کاروبار پھیل گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہشتگردی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک مخصوص طرز کی اسلامائزیشن پروان چڑھی جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔ اس کے اثرات جنرل پرویز مشرف کے دور میں نمایاں ہوئے، سیاسی سرگرمیاں محدود تھیں، لیکن مذہبی اور شدت پسندوں کو کام کرنے کی پوری آزادی تھی۔


جن جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی اس میں سیاستدان خود محلاتی سازشوں کا حصہ تھے، اسی وجہ سے ایک دوسرے سے نجات حاصل کرنے اور خود حکومت کا حصہ بننے کے لئے تحریکیں چلاتے تھے اور باری باری اسمبلیوں سے استعفی دینے کی بھی ریت نبھاتے تھے ، اسے بھی جمہوری حق سمجھ کر ادا کیا جاتا تھا۔
بہرحال ان تمام ادوار سے گذر کر پاکستانی قوم اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اسے حالات میں بہتری ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔

عام آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی تقدیر کبھی نہیں بدلے گی خاص طور پر جب اسے یہ امید دلائی جاتی رہی ہے کہ وہ الیکشن میں بھرپور حصہ لے ، اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ ڈالے تو آنے والا وقت اس کی قسمت بدل دے گا ، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ وہ ہر الیکشن کے بعد یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے حکمرانوں نے ایک دفعہ پھر اسے ایک ایسی بھیانک بند گلی میں دھکیل دیا ہے جہاں مایوسی اور ناامیدی کا گھپ اندھیرا ہے ،جہاں سے امید کی کرن کا بھی گذر تک نہیں ہوتا، جہاں انقلاب کا نعرہ لگایا جارہا ہے وہاں اصلاحات کا ڈھول بھی پیٹا جارہا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ انقلاب آئے گا یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ انقلاب سے خوفزدہ لوگ کون ہیں اور کیوں؟ انقلاب کے حمایتی کون ہیں اور کیوں؟ جو لوگ اصلاحات چاہتے ہیں وہ بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ! وہ لوگ اسی کو انقلاب کہتے ہیں ۔
گویا ہر ایک کا اپنا اپنا انقلاب اور اپنی اپنی اصلاحات ہیں۔ میری دانست میں بہت سیدھی سی بات ہے جہاں استحصال ہوگا وہیں انقلاب کی سوچ جنم لے گی ۔

آپ ٹوٹی ہوئی اصلاحات سے اُسے عارضی طور پر ٹال تو سکتے ہیں لیکن روک نہیں سکتے۔ زارِ روس کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد مغربی یورپ میں بہت سی اصلاحات ہوئیں، انہوں نے معاشرے کو استحصال سے پاک کرنے کی کوشش بھی کی اور ریاست کو فلاحی ریاست بنانے کی طرف پیشقدمی بھی ہوئی اور ایک بڑے انقلاب سے بچنے کیلئے اب بھی اصلاحات کا عمل جاری ہے۔


یہ کہنا کسی حد تک درست ہوسکتا ہے کہ اصلاحات اگر حقیقی معنوں میں ہوں اور ان پر عملدرآمد بھی کیا جائے تو یہ ایک نرم انقلاب ہوگا۔ پاکستان میں 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے جو امیدوار کا انتخابی فارم بنایا گیا تھا اگر اس پر عملدرآمد ہوجاتا اور امیدوار مکمل اسکروٹنی کے بعد الیکشن میں حصہ لیتے اور انتخابی عمل میں بے قاعدگیاں نہ ہوتیں تو آج گرم انقلاب کی گفتگو نہیں ہوتی کیونکہ وہ کسی حد تک انقلابی اصلاحات تھیں، اسکروٹنی کا عمل درست نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں مایوسی نے جنم لیا۔

یہی وجہ ہے کہ اب انقلاب کئی لوگوں کی خواہش اور کسی حد تک مطالبے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
پارلیمنٹ نے اس اٹھتے ہوئے طوفان کی شدت اور حدت کو بھانپتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ حکومتی پارٹی اس ممکنہ صورتحال سے خوفزدہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا انقلابی اصلاحات کی جائیں گی یا کاسمیٹک ورک سے اس کی شکل ایک مرتبہ پھر بگاڑ دی جائیگی؟
اس وقت قوانین پر عملدرآمد تو کجا سیاسی اقدار اور اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل چکا ہے۔

ایک امیدوار قومی اسمبلی کے الیکشن میں ناکام ہوتا ہے تو اس کی پارٹی اسے سینٹ کا ممبر بنادیتی ہے۔ یا کسی کو مخصوص نشست سے رکن اسمبلی بنادیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی نفع بخش ادارے کا سربراہ یا بورڈ کا رکن بنا کر اسے فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن ایسی سیاسی رشوت دیتے وقت یہ نہیں سوچا جاتا کہ عوام کی کثیر تعداد نے جسے مسترد کیا ہے ، کیا یہ عوامی فیصلے کی توہین کے مترادف نہیں؟ یقینا ہے ۔

جو لوگ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اصلی احتساب عوام کی عدالت ہے اور الیکشن ہی اس کا واحد طریقہ ہے ، وہی لوگ اس طرح کے اقدامات کرکے عوام میں یہ تاثر پیدا کرتے رہتے ہیں کہ آپ کا فیصلہ کچھ بھی ہو لیکن ہم جو چاہے کرسکتے ہیں۔ اور اگر اب عوام الیکشن پر اعتبار کرنے سے گریزاں ہیں تو پھر ان کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔
اصلاحات کی بھی طویل فہرست ہے جسے ہمارے انتخابی نظام کا حصہ بننا چاہیے ، لیکن اس سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے ۔

حقیقی جمہوری کلچر اگر پارٹیوں میں آئے گا تو اس کا پرتو الیکشن اور پارلیمنٹ میں نظر آئے گا ، پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں، ان کے کلچر کو تبدیل کرنے کیلئے آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن ہی صحیح معنوں میں کردار ادا کرسکتا ہے ۔
اصلاحات کا راستہ طویل اور صبر آزما ہے، جبکہ انقلاب بظاہر آسان لیکن کٹھن ترین ہے۔ انقلاب برپا کرنے سے زیادہ مشکل اُسے مستحکم کرنا ہے۔

راستے دونوں مشکل ہیں، اگر اصلاحات انقلابی نوعیت کی نہیں ہوں گی تو پھر ایسا انقلاب آسکتا ہے جو سب کچھ بہا کے لے جائے گا۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا کہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے، چند لوگ اہم نہیں ۔ یہ سوچ نو آبادتی سامراج کی سوچ ہے کہ چند لوگوں پر انحصار کیا جائے ۔ ماہر علم نجوم کی باتوں سے اگر چہ میں مطمئن نہیں ہوا تھا، لیکن سوچ و بچار کے بعد میں اس نقطے پر ضرور پہنچا کہ علامہ اقبال کا کہا درست ہے کہ اقوام کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں ہے جو فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

پہلے مرحلے میں وہ فیصلہ جو حکمرانوں کو منتخب کرتا ہے اور پھر وہ فیصلے جو حکمراں کرتے ہیں۔ اگر پہلا فیصلہ غلط ہوگیا تو باقی فیصلوں کے بہتر یا درست ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ہم اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے ہی لکھتے ہیں اچھی یا بری اگر بہتر فیصلہ کرلیا جائے تو وہی حقیقی انقلاب ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :