معرکہ کارگل اور حکمرانوں کا معذرت خواہانہ رویہ

ہفتہ 7 فروری 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

پاکستان میں معرکہ کارگل پر بڑی لے دے ہوتی رہی ہے۔نواز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ ان کو اِس کا علم نہیں تھا۔مشرف صاحب نے یہ معرکہ خود ہی لڑا۔میں اس کے خلاف تحقیقات کرواؤں گا۔اس سے ملک بدنام ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک معمولی سے سوچ رکھنے والا پاکستانی شہری سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کا ملک کے سربراہ کو علم نہ ہو۔

مشرف صاحب تو کہتے ہیں نواز شریف صاحب کو اس کا علم تھا۔جانے اندر کی بات کیا ہے ۔اگر لوگوں کو یاد ہو کہ کارگل معرکہ کچھ مدت قبل نواز شریف صاحب گلگت گئے تھے۔ فوجیوں کے ساتھ ان کا فوٹو بھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر آیا تھا۔ دورے کی خبریں بھی میڈیا میں آئیں تھیں۔یہ تو جاننے والوں کے علم میں تھا کہ معرکہ کارگل سے تقریباً ۲ سال پہلے شمالی علاقہ جات میں نادرن لائٹ انفنٹری قائم کی گئی تھی۔

(جاری ہے)

اس کے انچارج مشر ف صاحب تھے۔ ظاہر ہے دفاعی نقطہ نظر سے ،فوج نے کچھ سوچ کر ہی لائٹ انفنٹری قائم کی تھی ۔ یہ سوچ بھی سامنے ہو گی کہ اس سے نوجوانوں کو روزگار ملے اور اس علاقعے کا دفاع بھی مستحکم کیا جائے گا۔ اُس وقت وہاں کے لوگوں نے سراہا بھی تھا۔ کیونکہ شمالی علاقہ جات میں شعیہ سنی اختلاف کا بھی مسئلہ تھا ۔ نوجوانوں کو نوکریاں ملیں تو کچھ حد تک مسئلہ دب گیا تھا اور لوگ کاموں میں لگ گئے تھے۔

ظاہر ہے فوج اپنی پلائنگ کرنے میں آزاد ہوتی ہے۔ اس کا کام ہی ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ فوج کو اس بات کا ادراک بھی ضرور تھاکارگل سیاچین کے راستے میں بھارت کی کوئی قابل ذکر چوکیاں بھی نہیں ہیں۔ بھارت نے سیاچین میں۳۲ ہزار کے قریب فوج بھی لگائی ہوئی ہے۔یہ بھی فوج کے علم میں تھا کہ معاہدہ شملہ کے بعد کچھ اہم چوٹیوں پر بھار ی فوجوں نے جارحانہ طور پر قبضہ بھی کیا ہے جو شملہ معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

معاہدے میں جنگ بندی لین کو لائن آف کنٹرول بھی قرار دیا گیا تھا اور یہ بھی طے تھا کہ اس کنٹرول لین کو ہردو فریق کراس نہیں کریں گے۔ مگر بھارت نے اس معاہدے پر عمل نہیں کیا اور علاقے کی کچھ اہم چوٹیوں قبضہ کر لیا۔ اور اگر پاک فوج بھی آگے بڑھ کر کارگل سیا چین شاہراہ پر قبضہ کر لے توبھارتی فوج سے اپنی اہم چوٹیاں بھی خالی کروائی جا سکتی ہیں۔

اور بھارتی فوج کی رسد بھی بند کرکے اس کی ۳۲ ہزار فوج کو مفلوج کیا جا سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان کا بدلہ بھی چکایا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی بھارت نے سیاہ چین پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ بھارت تو جارحانہ طرز عمل اختیار کر کے کشمیر پر قبضہ کر لے۔ اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے سیاہ چین پر قبضہ کرے۔ پھر مذید آگے بڑھ کر علاقے کی اونچی چوٹیوں پر بھی قبضہ کر لے ۔

پھر بھی پاکستان بین اقوامی طور پر اس کی گرفت نہ کرے ۔کشمیر بین القوامی طور پر مانا ہوا متنازہ علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے بارے میں متفقہ طور پر مانے جانے والی قراردادیں موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے مبصر کشمیر کی دونوں اطراف میں موجود ہیں۔ کشمیر پر ہماری کمزور پالیسی کا یہ عالم تھا کہ سیاہ چین پر بھارت کے قبضہ کے موقعے پر بین ا قوامی طور پر بھر پور احتجاج کرنے ،اقوام متحدہ میں احتجاج ریکارڈ کروانے، اس کا فالواپ کرنے کے بجائے ہمارے سابق جنرل ضیا کا بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ سیاہ چین پر تو گھاس بھی نہیں اُگھتی ۔

یعنی سیاہ چین پاکستان کے لیے غیر اہم جگہ ہے۔ قوم سابق جنرل کو کیسے بتاتی کہ جنرل صاحب سیاہ چین کے گلیشئرز کے پانیوں سے تو پاکستان کے میدانوں میں گھاس اُگھتی ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اناج بھی پیدا ہوتا ہے ۔ ہماری کھتیاں بھی ہری بھری ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں ہر دور میں ہماری خارجہ پالیسی کی ناکام رہی ہے۔بھارت سے ہمارے حکمرانوں کے ڈر کا یہ عالم ہے کہ جب کشمیر میں جاری جنگ آزادی زوروں پر تھی۔

ایک میٹنگ میں ایک دفاعی عہدہ دار کشمیر پر بریفنگ دے رہا تھا۔ جس میں بے نظیر صاحبہ اور سابق جنرل گل حمید صاحب موجود تھے۔جب جنرل حمید گل نے دفا عی عہدہ دار سے سوال کیا کہ اب اس سے آگے کیا ہو گا؟ تو بے نظیر صاحبہ نے دفاعی عہدہ دار سے کہا آپ ٹھریں۔ جنرل صاحب کو میں جواب دیتی ہوں۔ بے نظیر صاحبہ نے کہ پاک بھارت جنگ ہو گی۔تو کیا کشمیر میں اتنی بڑی مزاہمت شروع کر کے پھر جنگ کے بغیر ہی کشمیر پاکستان کو مل جائے گا۔

نہیں نہیں مزاہمت شروع کرنے سے پہلے ہی جنگ کے متعلق پلائنگ کرنی تھی۔ گوریلہ جنگ میں تو دشمن کو مفلوج کرنا ہوتا ہے علاقوں پر تو فوجیں ہی قبضے کرتی ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہییے کہ بھارت آپ کی شہ رگ پر قبضہ کئے ہوئے ہے۔ وہ پاکستان کو بوندھ بوندھ پانی کے لیے ترسا ترسا کر مارے گا۔ا یسا مرنے کی بجائے ہم کو بہادری سے بھارت کا مقابلہ کرنا چاہییے۔

ہمارے حکمرانوں کو جنگ کا خوف دل سے نکال دینا چاہیے۔ کیا اس سے قبل بھارت نے ۱۹۴۷،۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگیں پاکستان پر مسلط نہیں کی تھیں۔ کیا ہمارے حکمران بھارت کے ساتھ جنگ سے ڈرتے ہیں؟ بھارت تو جنگ کر کے آپ سے کشمیر چھین لے،سیاہ چین اور اونچی چوٹیوں چھین لے، مشرقی پاکستان چھین کر بنگلہ دیش بنا دے ۔ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کرتا رہے۔

آپ اپنی شہ رگ پر قابض بھارت سے جنگ سے گریز کر کے کیسے کشمیر حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا ایک ایٹمی طاقت کے ملک کے شایان نشان ایسی معذرتانہ خارجہ پالیسی صحیح ہے۔ اسی تناظرمیں میں عوام کو یاد ہو گا کہ حزب ا لمجائدین کے سربراہ اور کشمیر کی تمام جہادی تنظیموں کے سپریم کمانڈرسید صلاح الدین کا اخبارات میں بیان بھی آیا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے مقتدر حلقوں سے ملاقات کر کے ان پر واضع کر دیا ہے کہ فرض کریں کہ اگر بھارت نے مشرقی پاکستان کے حالت ۱۰۰ فی صد خراب کر کے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا ۔

ہمارے فوجیوں کوقیدی بنا لیا تھا۔ تو ہم کشمیریوں نے کشمیر کے اندر ۲۰۰ فی صد حالات خراب کر دیے ہیں پاک فوج آگے بڑھ کر کشمیر پر قبضہ کر لے۔ حالت بل کل پاک فوج کے حق میں ہیں۔ ایسے حالات میں بھارت نے بھی مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کی تھیں۔ ان سب چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری نظر میں اگر مشرف صاحب نے بھی کچھ جارہانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے کارگل سیاچین شاہراہ پر قبضہ کر کے بھارت کی ۳۲ ہزار فوج کو گھیر لینے کی حکمت عملی پر کام کیا تو اس پر اس کی ایسی گرفت نہیں ہونی چاہییے تھی۔

جیسی میڈیا کے اندر کر اپنے کمانڈر کو بدنام کیا گیا تھا۔گرفت کرنے کی بجائے کسی اور طریقے سے ڈیل کیا جا سکتا تھا۔ویسے بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک منظم فوج کا سربراہ کسی ساتھی کو بتائے بغیر دشمن سے جنگ چھیڑ دے۔اس میں لاک آف کیمنوکیشن کی غلطی کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی عقل نہیں مانتی کہ ملک کے سربراہ کو اتنے بڑے معرکے کا سرے سے علم ہی نہ ہو۔

اس مفروضے کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم کچھ حقائق پر گفتگو کرتے ہیں۔ہمارے ملک کی دفاعی پایسی ترتیب دینے والوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ جب کسی ملک پر حملہ کیا جاتا ہے یا اس سے جنگ چھڑی جاتی ہے تو دشمن ملک کی کسی بھی کمزوری سے ضرور فائدہ اُٹھاتا ہے۔اگر ہمارے مقتدر حلقوں نے کشمیر کے اندر آزادی کی جنگ لڑنے والوں کی مدد کی پالیسی ترتیب دی تھی تو اس بات پر ضرور سوچا ہو گا کہ اس سے بھر پور جنگ چھڑ سکتی ہے۔

اور کیا ایسی صورت میں پاکستان اس کے لیے تیارہے؟یہی وجہ ہے کہ معرکہ کارگل بر پاہ ہونے پر بھارت نے پاکستان پر حملے کی دھمکی دی تھی۔ جس کی امریکا نے پاکستان کو اطلاح دی تھی اور ہمارے حکمران پریشان ہو کرامریکابھاگے۔ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ یہ ہمارے جنرل کی ذاتی غلطی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھراپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے کشمیری مجائدین کو چن چن کر بھارتی فوجیوں نے مارا۔

جنگ بندی نہ ماننے والے مجائدین کو ہم نے بھی مارا۔ یہ بزدلی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کر کے ایک ایٹمی قوت کے ملک کے شیان شان خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہییے۔ بھارت پر واضع کر دینا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیریوں کو اپنی آزاد رائے حق خود ارادیت کے تحت اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے۔ ورنہ نتائج کے تیار ہو جائے، چاہے اس کے لیے ایک پھر پور جنگ ہی کیوں نہ ہو۔اللہ پاکستان کا محافظ ہو۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :