حکمران دوست اوردشمن کو کب پہچانیں گے؟

جمعہ 30 جنوری 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

اوباما کے دورہ بھارت پر پاکستان میں بحث ہو رہی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے یہ بھارت اور امریکا کا معاملہ ہے وہ جانیں ا ور ان کا کام جانے۔ کوئی کہہ رہا ہے ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں وہ دوسرے ملکوں سے اپنے مفادات کے مطابق دوستی یا دشمنی کرتے ہیں۔کوئی کہہ رہا ہے امریکا نے پاکستان کی۶۷ سالہ دوستی کے عوض بھارت سے یک طرفہ مختلف معاہدات کر کے پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

اور یہ سب مانتے ہیں کہ امریکا کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی۔ اس تناظر میں بھارت بھی دوستی کر کے دیکھ لے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد پاک امریکا دوستی رہی ہے۔ پاکستان سینٹو اور سیٹو معاہدات میں امریکا کے ساتھ جڑا رہا ۔ سرد جنگ کے دور ان پاکستان امریکا کا اتحادی رہا۔

(جاری ہے)

پاکستان نے امریکا کو روس کے خلاف فوجی سہولتیں دیں۔

جس سے پاکستان کو نقصان ہوا۔ مثلاً پشاوربڈھ پیر سے اڑ کرامریکا کا جاسوس جہاز یو ٹو روس کی جاسوسی کرتا رہا۔ جس پر روس ہمارا دشمن ہو گیا اور اس نے پاکستان سے بدلہ اس صورت میں لیا کہ جب بھارت نے اپنی فوجیں سابقہ مشرقی پاکستان میں داخل کیں تو دوسری طرف روس کی گن بوٹس نے پاکستان کی ناکہ بندی کی۔روس نے بھارت کو دھڑا دھڑ اسلحہ بھی دیا اور اس کے ساتھ دفاعی معاہدے بھی کئے۔

اس طرح بنگلہ دیش بنانے میں روس نے بھارت کا ساتھ دیا تھا۔کیمونزم اور سرمایا دارانہ نظام کی کشمکش کے دوران بھی پاکستان امریکا کا دوست تھا۔افغانستان پر کمیونسٹ روس کے حملے کے بعد جب افغانیوں نے روس کے خلاف جہاد شروع کیا تو امریکہ بھی روس کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے اس جنگ میں شریک ہو گیا۔ پاکستان نے امریکا کی بھر پور مدد کی۔اور بلا آخر روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔

امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا۔ امریکا نے نیو ورلڈ آڈر کا اعلان کر دیا جو آج تک قائم ہے۔اس تناظرامریکا کے نیو ورلڈ آڈر میں پاکستان نے بھی مدد کی۔امریکا جو پاکستان کا دوست تھا اور اب بھی ہے ۔ اب پاک امریکا دوستی کی کارکردگی پر بات کرتے ہیں۔ جب پاکستان بھارت نے ۱۹۶۵ء کی جنگ لڑی تو عین موقعہ پر امریکا نے پاکستان کو دفاعی سامان کے فاضل پرزے دینے سے انکار کر دیا۔

ایف سولہ معاہدے میں نقد جمع کرنے کے باوجود ایف سولہ نہ دیے ۔پاکستان کی بار باردرخواستوں کے اور خرید و فروخت کے بین الاقوامی اصولوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کے عوض سوابین دی۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنگر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کے ساتھ امریکا بھی ملوث تھا۔ امریکاپاکستان کو ایٹمی پروگرام جاری رکھنے میں ہمیشہ دشواریاں پیدا کرتا رہا۔

بھارت نے دھماکہ کیا تو اس پر تو اقتصادی پابندیاں نہ لگائیں مگر جو اپنی حفاظت کے لیے پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس پر پابندیاں لگا دیں۔ کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا۔ اقوام متحدہ میں کئی بار ویٹو پاور استعمال کر کے کشمیر دشمنی کا ثبوت دیا ۔ کشمیری جو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کشمیر کی آزادی کی جد و جہد کر رہے ہیں بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دیا۔

امریکا نے جب ہمارے پڑوسی مسلمان ملک پر حملہ کیا تو پاکستان کے ڈکٹیٹر مشرف نے اس کا ساتھ دیا۔ پاکستان کی بحری، بری اور فضائی راستوں کو استعمال کی اجازت دی۔اس جنگ میں پاکستان کے پنتالیس ہزار شہری جن میں فوجی بھی شامل ہیں شہید ہوئے ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکا پاکستان کے علاقعوں پر ڈرون حملے کر رہا ہے۔سہالہ پوسٹ پر حملہ کر کے ہمارے فوجیوں کو شہید کیا۔

افغانستان کی جنگ پاکستان میں لے آیا ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف سے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان میں پاکستان دشمن حکومت نہیں بننے دے گا۔ مگر آج وہاں پاکستان دشمن حکومت ہے ۔ ملا فضل اللہ افغانستان سے ہمارے آرمی پبلک اسکول دہشت گردی کر کے ۱۴۰/ بچوں کو شہید کر چکا ہے۔ بھارت افغانستان میں درجنوں کونصل خانے قائم کر کے پاکستان کے خلاف کاروائیاں کر رہا ہے۔

اس کے باوجودامریکا ہم پر ڈبل گیم کا الزام لگاتا رہتا ہے۔ ہماری بہادر فوج کو اپنے ہی شہریوں سے لڑا کر خوش ہے۔ کیا کیا بیان کیا جائے۔ امریکا نے ہمیشہ پاکستانی عوام کے ساتھ دوستی کی آڑ میں دشمنی کی۔قربانیاں تو پاکستان سے مانگتا ہے اور دوستی کی پینگیں بھارت کے ساتھ بڑھتا ہے۔ اپنے دورے سے پہلے بھارت کو خوش کرنے کے لیے اوباما نے بھارتی اخبار کو انٹرویو دیا اور کہا ممبئی حملوں کے ملزمان کو کٹہرے میں لایا جائے ۔

کیا سمجھوتا ایکسپریس کے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کی بات کرنے سے شرماتا ہے۔ اوباما نے کہا دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گائیں پاکستان میں ہیں۔ اوباما۲۵ جنوری کو بھارت پہنچے۔ مودی جس کو حیدر آباد میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امریکی ویزے پر پابندی تھی۔ مودی اب پکا دوست بن گیا۔بھارت کی ایٹمی نگرانی سے د ستبرداری کا اعلان کیا۔

۲۰۰۸ء میں دونوں ملکوں نے جوہری تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس نئے سمجھوتے کے تحت اب تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔سلا متی کونسل میں مستقل رکنیت کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ کیا یہ انعام ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مخالفت کا؟ جو کشمیر کے حوالے سے اب تک اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ دونوں ملکوں نے دفاعی اور تجارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق کیا۔

بھارت نے اپنی سفارت کاری سے ایک سپر پاور سے ریاعتیں حاصل کرلیں۔ کہاں گئی پاکستانی سیاست دانوں کی سفارت کاری جو اپنے ۶۷ سالہ دوست کوایک دن کے لیے پاکستان آنے کی دعوت نہ دے سکے۔ اب کیا اندرونی دہشت گردوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کے کام بھی مسلح افواج کا سربراہ کرے گا۔ امریکا بھارت گٹھ جوڑ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا حربہ ہے۔

بھارت کے دورے کا توڑ کرنے کے لیے راحیل شریف چین کے دو روزہ دورے پر گئے۔ چینی ہم منصب سے ملاقات کی۔چینی حکام نے کہا کہ پاکستان کے خدشات درست ہیں ۔ چین کے لیے پاکستان کا کوئی متبادل نہیں۔چینی حکومت اور عوام پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیشہ ہر سطح پر مدد کی جائے گی۔ دونوں ملکوں کی منزل ایک ہے۔ چین نے اس مشکل موقعہ پر دوستی کا حق ادا کر دیا ۔پاکستانی عوام جو مودی کی شوخیوں کی وجہ سے خدشات میں مبتلا ہوئی تھی چین نے ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی مکمل ساتھ دے کر پاکستانی عوام کے دل جیت لیے۔ حکمرانوں کو امریکا کے ساتھ ۶۷ سالہ دوستی کو از سرنو ترتیب دینا چاہییے۔ اب بھی نہیں تو کب ہمارے حکمران دوست اور دشمن کو پہنچانیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :