امیدیں جواں تو خزانے عیاں

جمعرات 12 مارچ 2015

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

ہم یہ مقولہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے۔اس مقولے کے وہ مفہوم جو علمِ نفسیات جاننے کے بعد منکشف ہوئے ہیں پہلے ہرگز نہ تھے۔یہ بڑی بری ایجادات امید نے ہی کی ہیں۔ یہ کائنات روز بروز خوبصورت سے خوبصورت ہوتی جا رہی ہے یہ امید ہی ہے جواسے خوبصور ت کر تی جا رہی ہے۔ یہ سمندروں میں تیرنا، یہ فضاؤں میں اڑنا ، یہ دوسرے جہانوں کی سیر کے لئے جانے کے ارادے کرنا، یہ سب امید کروا رہی ہے۔

اُمید رب کی طرف سے کی گئی عطاؤں میں سے بادشاہ عطا ہے۔
اُمید نہ ہو تو دنیا کے سارے کام چوپٹ ہو کے رہ جائیں۔بچہ پیدا ہوتا ہے، ابھی وہ پنگوڑے میں ہوتا ہے تو ماں اُس سے امیدیں وابستہ کرنے لگتی ہے۔یہ بڑا ہوگا ۔ یہ تعلیم حاصل کر کے بڑا انسان بنے گا۔ بہت سی دولت کمائے گا۔

(جاری ہے)

ہمارے گھر کے سارے دلدر دو ر ہو جائیں گے۔ایسا ہوتا نہیں بچہ بڑا ہوکر نشئی بن جاتا ہے۔

گھر کی چیزیں بیچ بیچ کا نشہ خریدتا ہے۔اگر والدین کو قبل از وقت اس بات کی خبر ہو جائے تو اسے کسی دریا میں پھینک دیں۔ کوئی گڑھا کھود کر دبا دیں۔وہ صرف امید کے سہارے اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کرتے چلے جاتے ہیں۔
ایک کسان زمین کرائے پر لیتا ہے۔مہنگی بجلی سے مہنگا پانی نکال کر بجائی سے قبل کھیت کو دیتا ہے۔وتر آنے پربہت سی رقم خرچ کر کے اس زمین پر ٹریکٹر سے حل چلاتا ہے۔

اس میں مہنگی کھاد ڈالتا ہے۔ پھر مہنگا بیج خریدتا ہے اور وہ کھیت میں ڈالتا ہے۔وہ بیج ڈالنے تک کے عمل میں ہزاروں روپے خرچ کر دیتا ہے۔وہ اپنا روپیہ پیسہ خاک میں ملا دیتا ہے۔وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ وہ ایسا اس لئے کرتا ہے کہ اُسے امید ہوتی ہے کہ بیج سے پودے اُگیں گیں۔ پودے بڑے ہوتے ہوتے فصل کی شکل اختیار کر لیں گے۔ یہ فصل بہت عمدہ ہوگی۔ اس فصل کی فروخت سے وہ خرچ کئے گئے پیسوں سے دوگنا کما لے گا۔

یہ سب کچھ اُس امید کرواتی ہے۔
ایک ٹرین کراچی جا رہی ہوتی ہے۔ اگر آپ کراچی جانا چاہتے ہیں تو سوار ہونے سے قبل آپ کو ٹکٹ خریدنا ہوتا ہے۔آپ بلا خوف و خطر یہ ٹکٹ خرید کر ٹرین میں سوار ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ ٹرین راستے میں خراب ہوجائے گی اور نہ تو کوئی دوسری ٹرین آئے گی اور نہ کوئی دوسرا ذریعہ آمدورفت ملے گا تو آپ ہرگز ٹرین میں سوار نہ ہونگے۔

آپ کو یہ امید واثق ہوتی ہے کہ ہم بے یارومدد گار ہرگز نہیں رہیں گے۔
سب سے پہلا شخص جو ماؤنٹ ایورسٹ کی طر ف محوِ سفر ہوا نہ جانے وہ زندہ رہا یا مر گیا اُس نے یہ دیوانگی اس لئے کی کہ اُس کی امید بہت قوی تھی۔جن دو بھائیوں نے سب سے پہلے جہاز ایجاد کیا انہیں یہ امید تھی کہ وہ کر لیں گے اس لئے وہ دیوانوں کی طرح لگے رہے ۔ لوگوں کا مزاق سہتے رہے لیکن اپنی امید کو نہ ٹوٹنے دیا۔

ایڈیشن نے بلب ایجاد کیا تو نہ جانے کتنے دن ایک فیکٹری کے مالک سے یہ کہہ کر تنخواہ لیتا رہا کہ وہ ایک دن بلب بنا لے گا۔ مالک نے تنگ آ کر اُسے فیکٹری سے اٹھا دیا ۔ اُس نے امید کو نہ ٹوٹنے دیا۔ دوسری جگہ جا کر بیٹھ گیا اور پھر دنیا کو وہ کر دکھایا کہ دنیا دانتوں میں انگلی دبا کر دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔
پتنگ باز جب پتنگ اڑاتا ہے تو اُسے کھلی فضاؤں میں پتنگ اڑاتے ہوئے بڑا مزا آرہا ہوتا ہے۔

پتنگ اور اونچی اور اونچی ہوتی چلی جاتی ہے۔ایک وقت آتا ہے کہ یہ آنکھوں سے بالکل اوجھل ہو جاتی ہے۔پتنگ باز کو پتنگ بالکل نظر نہیں آرہی ہوتی لیکن اُس کو اعتماد ہوتا ہے کہ پتنگ فضا میں اڑ رہی ہے اس لئے کہ رسی کا سراا ُس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔جب تک امید اتنی طاقت ور نہیں ہوتی جتنی پتنگ باز کے سرا تھامے ہوئے ہونے پر ہوتی ہے تو کامیابی نہیں مل پاتی۔


خدا ایک امید کا نام ہے جس کا ایک سراہم ہر وقت تھامے ہوئے ہوتے ہیں۔ جس طرح ماں بچے کو اچھالتی ہے تو وہ ہنستا ہے۔اُس کی یہ یقین ہوتا ہے کہ مجھے ماں تھام لے گی۔اگر اُسے یہ پختہ یقین نہ ہو تو وہ رونا شروع کر دے۔ ڈر جائے۔ لیکن وہ یقین کی وجہ سے خوش ہو رہا ہوتا ہے۔ماں سے کہتا ہے مجھے دوبارہ اچھالو۔جب ہمیں خدا پر اتنی طاقتور امید ہو جاتی ہے تو وہ ہمیں گرنے سے پہلے تھام لیتا ہے۔

خدا سے اتنی طاقتور امید قائم ہو جانے کے بعد ہمیں رسک لینا آسان ہو جاتاہے۔ہم خطروں میں کود جاتے ہیں۔
غوطہ خور جب سمندر میں غوطہ لگاتا ہے تو اُسے یہ خطرہ بھی نظر آ رہا ہوتا ہے کہ کوئی خطرناک سمندری مخلوق اُسے ہڑپ کر سکتی ہے لیکن اس خطرے سے ز یادہ اُس کی امید طاقتور ہوتی ہے۔وہ اس اُمید کے سہارے گہرے پانیوں میں کود جاتا ہے کہ وہ نہ صرف بچ کر باہر نکل آئے گا بلکہ واپسی پر اُس کے پاس بہت سے موتی بھی ہونگے۔

ہمیں زندگی کے میدان میں بھی اسی طرح کا جوا کھیلنا ہوتا ہے۔بعض دفعہ ففٹی ففتی چانس بھی لینا پڑتا ہے ۔
امید دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور چیز ہے یہ ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم مثبت انداز میں سوچیں ۔ہم آگے بڑھیں ۔ ہم متحرک ہوں اور کامیابی حاصل کریں۔امید ہمارے یقین کا ٹمٹاتا ہو دیا ہے۔ جو پر امید ہے وہ زندہ ہے جو پر امید نہیں وہ مردہ ہے۔اُمید ہماری پراعتماد دوست ہوتی ہے۔یہ ہماری مدد گار ہوتی ہے۔ یہ ہماری مشکل کے وقت کی ساتھی ہوتی ہے۔یہ کامیابی کو ہمارا غلام بنا کر ہمارے قدموں میں لا پھینکتی ہے۔مجھے یہ بے باک کہنے دیجئے
امیدیں جواں تو خزانے عیاں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :