طاقت کی خواہش

جمعرات 6 مارچ 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

انسان کی شدید خواہشات میں سے ایک خواہش طاقت کے حصول کی خواہش بھی ہے۔کبھی کبھی تو یہ خواہش بری نہیں ہوتی لیکن بعض اوقات انسان اس خواہش کے حصول کے لئے کچھ بھی کر گزرنے پراتر آتا ہے۔اس خواہش کے حصول کے لئے انسان اندھا ہو جاتا ہے۔تشدد کرنے پر اتر آتا ہے۔ لڑتا ہے، لڑاتا ہے خون کی ندیاں تک بہا دیتا ہے۔اُسے صحیح ، غلط، کی تمیز ہی ختم ہو جاتی ہے۔

اپنے پرائے کافرق ہی مٹ جاتا ہے۔ جائز ناجائز کی حدود ہی ختم ہو جاتی ہیں ۔حد سے بڑھی ہوئی یہ خواہش انسان کو پاگل پن تک پہنچا دیتی ہے ۔طاقت کی ہوس ایسی ہوس ہے جس کی تسکین کبھی ہو ہی نہیں پاتی۔طاقت کی ہوس میں مجبور اور محتاج انسانیت پس کر رہ جاتی ہے۔ ماضی میں مطلق العنان بادشاہوں نے اس طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور کشتوں کے پشتے لگاد ئیے۔

(جاری ہے)

اپنی خواہش کی تسکین کے لئے انسانیت کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کروا دیا۔کم ظرفوں کے پاس جب بھی طاقت آئی ،چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کی انا مجروع ہونے لگی اور انہوں نے محتاجوں کوذلیل و خوار کیا۔اہلِ طاقت کو بہت سے ایسے مراحل میں سے گزرنا پڑتا جہاں ضبط اور صبر بہت اچھے نتائج دیتا ہے لیکن کم ظرف فوری اشتعال میں آکر ظلم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔

جہاں صبرو ضبط کی ضرورت ہوتی ہے وہاں یہ لوگ طاقت کا بے جا استعمال کرنے لگتے ہیں ۔یہ بجا کے نظم ضبط کے لئے طاقت کا کسی ایک جگہ پر ارتکاز ضروری ہوتا ہے لیکن اس طاقت کے استعمال کرنے والے کا اعلٰی ظرف اور باصلاحیت ہونا ضروری ہوتا ہے۔وہ اس طاقت کے استعمال میں اگر تواز ن کو قائم نہ رکھے تو بہت سی پیچدیگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔بنو عباس کے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا ایک دن اس کے پاس ایسی حالت میں آیا کہ غصے اور رنج سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔

خلیفہ نے بیٹے کی حالت دیکھ تو اسے پوچھا، جانِ پدر کیا بات ہے؟ تم پریشان کیوں نظر آ رہے ہو؟ شہزادے نے کہا فلاں سپاہی کے بیٹے نے مجھے ماں کی گالی دی ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر خلیفہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا بتاؤ ایسے مجرم کو کیا سزا دی جائے۔ ایک نے کہا، ایسے ناہنجار کو قتل کر دینا چاہیے۔ دوسرا بول اس کی زبان کٹوا دینا چاہیے۔ تیسرے نے مشورہ دیا کہ اس کے بات کی ساری جائیدار ضبط کر لیتی چاہیے۔

ہارون نے سب کے مشورے پوری توجہ سے سنے۔ پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بول بیٹا خدا نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دے سکتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تم اسے معاف کر دو۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کرو کہ تم بھی اسے ماں کی گالی دے سکتے ہو۔ لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اس سلسلے میں معمولی سی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔

خدا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں۔ حضرت علی کا فرمان ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے اندر کوئی غرور پاتا ہے تو یہ دراصل اُس کے کسی احساسِ کمتری کی وجہ سے ہوتا ہے۔بہت سے ایسے لوگ جنہیں اختیار تفویض کیا جاتا ہے وہ اپنے لاشعور میں دبی ہوئی بچپن کی محرومیوں کا بدلہ اُس وقت کے محتاج اور مجبور لوگوں سے لینے لگتے ہیں۔یہ بجا کہ نظم و نسق چلانے کے لئے بعض اوقات نرمی بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے لوگ نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگتے ہیں۔

ایسے میں سخت اقدامات ناگزیر ہوجاتے ہیں لیکن ایسے میں بھی ضبط اور دور اندیشی کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ایک بزرگ سے کسی سانپ نے بیعت کر لی۔ انہوں نے اس سے یہ عہد لیا کہ کسی کو ڈسنا نہیں ، جانوروں نے جو دیکھا کہ یہ کسی کو کچھ کہتا ہی نہیں ہے تو نڈر ہو کر سب نے اس کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔بیعت کے چند روز بعد سانپ اپنے مرشد سے ملنے کے لئے آیا۔

بزرگ نے دیکھا کہ سانپ بہت بری حالت میں ہے۔ پوچھا کیا حال ہے؟ کہا آپ نے کاٹنے سے منع کردیا تھا ۔ جب جانوروں کویہ خبر ملی تو سب مجھے تنگ کر نے لگتے۔ فرمایا: میں نے کاٹنے سے ہی تو منع کیا ہے، پھنکارنے سے تو منع نہیں کیا ہے، اب سے جو جانور پاس آئے فوراَ پھنکار دیا کرو کہ وہ بھاگ جائے۔ یہ باضمیر ،اہلِ اقتدار کے لئے طاقت کے استعمال کا طریقہ کہ نہ تو طاقت کا استعمال کرنا ہی ترک کر دے اور نہ اسے بے جا استعمال کرتا رہے۔ساری تحریر کا خلاصہ اس قول میں ہے حضرت یحیٰ معاذ الرازی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے متکبر کے ساتھ تکبر کرنا عاجزوں کے ساتھ عجزکرنے کے مترادف ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :