پیپر میں نعرہ گو نواز گو

جمعرات 2 اکتوبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

گورنمنٹ ہائی سکول نمبر2 گکھڑ منڈی کے دہم کے طالب سحر علی نے بیالوجی کے پیپر پر گو نواز گو کے نعرے لکھ ڈالے ۔مجھے یہ خبر پڑھ کر اپنا بچپن یاد آ گیا۔ہمارے ایک اُستاد بہت رنگیلی طبیعت کے مالک تھے۔وہ دماغ کا نہ خود خرچہ کرتے تھے اور نہ اپنے طالب علم کو اس فضول خرچی کی عادت پڑنے دیتے تھے۔کلاس ٹیسٹ کے دوران پیپر تقسیم کر کے باہر چلے جاتے تھے کہ کہیں بچے جھجھک کی وجہ سے نقل کرنے سے قاصر نہ رہ جائیں۔

اتنی شفقت کے باوجودبعض طلباء ٹیسٹ پیپروں سے نقل کرنے کو بھی دماغ کا فالتو خرچہ ہی سمجھتے تھے۔ پیپر میں بڑی رنگیلی باتیں لکھ آتے تھے۔جن لڑکوں کی شعروں پر گرفت ہوتی تھی وہ اشعار کو نثر میں لکھ آتے اور جن کو ماہیوں پر عبور ہوتا وہ نثر کی شکل میں ماہیے لکھ آتے تھے، مقصد ہوتا تھا کہ پیپر کو نیلا کرنا ہے۔

(جاری ہے)

جن لڑکوں کو کہانیاں یاد ہوتی تھیں وہ تو فالتو شیٹیں بھی لگا آتے تھے،اُستاد فالتو شیٹیں دیکھ کر اس قدر خوش ہوتے تھے کہ کل نمبر سو ہوتے تو وہ طالب علم کو اپنی طبعی فراخدلی کی وجہ سے ایک سو تیس نمبر دے دیتے تھے۔

جب وہ دیکھتے کہ یہ تو ٹوٹل سے زیادہ ہو گئے ہیں تو ہر سوال کے نمبر منفی کرنا شروع کر دیتے تھے اور گھٹاتے گھٹاتے سو تک لے آتے تھے۔سو سے نمبر اس لئے نہیں گھٹاتے تھے کہ کہیں بچوں کا دل نہ دُکھے۔وہ طلباء جو دوسرے پرچوں میں پاس مارکس کو ترستے رہتے تھے بھی سو میں سے سو نمبر لئے پھرتے تھے۔سارے سکول کے طالب علموں کو یہ نمبر دکھا دکھا کر اپنی ٹہر بناتے پھرتے تھے۔

یاد رہے کہ پیپر جنرل سائنس کا ہوتا تھا۔استادوں کا نظریہ تھا کہ سائنس پڑھنا کافروں کا کام ہے اور طلباء کا نظریہ تھا کہ سائنس کے مضمون میں پاس مارکس سے بھی کم نمبر لے کرکافروں کے علم کی بے عزتی کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔دوسرے لفظوں میں ایجادیں کرنا کمی کمینوں کا کام ہے اور ایجادوں کو استعمال کرنا چوہدریوں کا کام ہے۔پیپروں میں دُکھڑے بیان کرنا، نعرے درج کرنا ، التجائیں اور درخواستیں کرنا بہت پرانی ریت ہے۔

اب تو بار بار خبردار کیا جاتا ہے کہ جو پیپر میں یہ چیزیں لکھے گا اُس کا پیپر کینسل کر دیا جاتا تھا ذرا پچھلا دور زیادہ سائنسی نہ تھا اس لئے اس کو بڑی برائی بھی نہ سمجھا جاتا تھا۔پیپر چیکر کو بڑی مزے دیر چیزیں پڑھنے کو مل جاتی تھیں۔رحمدل پیپر چیکر تر سب بھی کر جاتے تھے۔میں ایک دفعہ اپنے ایک پروفیسر سے ملنے گیا۔ وہ ہمیں ایف ایس سی کے دوران اُردو پڑھایا کرتے تھے۔

وہ اُس وقت پیپر چیک کر رہے تھے۔تپاک سے ملے۔کہنے لگے بیٹھو۔میں بی اے اردو کے پیپر چیک کر رہا ہوں بڑے مزے کی باتیں لکھی ہوئی ہیں، تم بھی لطف اٹھاؤ۔یہ ایک طالب علم تھا جس نے پیپر میں درخواست کی تھی کہ میری ساس نے شادی کی شرط یہ رکھی ہے کہ لڑکابی اے پاس کرے گا تو اُس کی شادی ہوگی۔
کہا مجبوری سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تم اگر کر لو بی اے پاس
تو میں لیلیٰ کو تجھ سے بیاہ دوں گی
خوشی سے میں بنوں گی تیری ساس
کہا مجنوں نے یہ لیلیٰ کی ماں سے
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس
جو یہ ٹھہری ہے شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفیٰ میرا باحسرت و یاس
لڑکے نے پیپر میں التجا کی تھی کہ میں خدا رسول کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے پاس کر دیں ورنہ میری شادی نہیں ہو سکے گی۔

میں اب مینا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ساری ساری رات اُس کی یاد میں آہیں بھرتا ہوں، تارے گنتا ہوں۔آپ تو خود عشقیہ شعر کلاس میں پڑھاتے ہوں گے اس لئے اس تڑپ کو بھی جانتے ہوں گے۔آپ اگر مجھے پاس کر دیں گے تو میں آپ کے لئے دعائیں کروں گا کہ آپ کو جنت میں ستر ہوروں کی بجائے بہتر ہوریں ملیں۔کہنے لگے اب بتاؤ کے دو ہوروں کے لئے اِسے پاس مارکس دے دئیے جائیں یا ستر ہوروں پر ہی اکتفا کیا جائے۔

عرض کیا کہ جس طرح کے اُن کے حسن کی تعریف سنی ہے ستر بھی کم ہیں، یہ گھاٹے کا سودا نہیں ، لے لینی چاہییں۔ہنس کر کہنے لگے تو چلو پھر اِسے مینا کو ملا دیتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے شواہد سے محسوس ہوتا ہے کہ برخوردار نے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی ، بدامنی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اپنی کیرئیر کی قربانی دے کر جناب وزیرِ اعظم پاکستان سے استعفٰی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ برخواردار نے اپنے حافظے کو ہی زحمت نہیں دی ہوگی اس لئے صاحبزادے کے پاس علم کے جو دوماشے تین رتیاں ہوں گی جس کے وجہ سے اُس نے دھرنوں کے کھاتے میں اپنے پیپر کو ڈال کر سیاست دانوں میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :