نثری گالیاں

بدھ 9 اپریل 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

صادق صاحب ہمارے پڑوسی ہیں۔ پڑوسیوں کے پڑوسیوں پر بہت حقوق ہیں۔ان حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی باتوں کے سننے کی کرید نہ کی جائے۔صادق صاحب کے گلے کی بانسری کہیں تیز رفتاری کی وجہ سے گر گئی تھی۔ جس کی وجہ سے معمول کے مطابق بھی بول رہے ہوں تو یوں محسو س ہوتا ہے جیسے جلسے سے خطاب کر رہے ہوں۔ اس لئے وہ پرانے زمانے کے ڈاک کارڈ کی طرح ہیں۔

جس پر لکھی تحریری ہر ایک پڑھ سکتا تھا۔وہ گھر میں جب گفتگو فرما رہے ہوتے ہیں تو کسی کرید میں پڑے بغیر ہم اُن کی گفتگو صاف سن رہے ہوتے ہیں بلکہ گھر کا ہر فرد اُن کی گفتگو صاف اور واضح سن رہا ہوتا ہے۔ اس دوران گھر کے کسی فرد نے دوسرے سے کوئی بات کہنا ہوہو تو بلند آواز سے کہتا ہے ، اور سننے اپنے دونوں کانوں کو پکڑ کر آگے کی طرف جھکاتا ہے،تاکہ آواز اِدھر اُدھر پھیلنے کی بجائے سیدھی کانوں میں پڑے ۔

(جاری ہے)

یوں توصادق صاحب کی مذہبی، ادبی اور معاشرتی گفتگو سے ہمارا گھرانہ فیضیاب ہوتا رہتا ہے اُن کی اپنے بچوں کی پرورش کا پورا لیکچر ہمارے بچے بھی سنتے رہتے ہیں۔ اُن کی گفتگو میں کبھی کبھی نثری گالیوں کا بھی استعمال کثرت سے ہونے لگتا ہے۔ ہمارے نہ چاہنے کے باوجود بالغ افرادِ خانہ کے علاوہ ہمارے بچے بھی اون لائن اس تربیت سے اپنا حصہ وصول کررہے ہوتے ہیں۔

جب وہ جسم کے پردہ دار حصوں کا استعمال بطور ضرب کے کر رہے ہوتے ہیں تو نہ جانے اُن کے بچے کس کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں ہم اپنے گھر میں چلتے پھرتے ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں۔ وہ گالی کواتنا لمبا کھینچتے ہیں جیسے پرانے زمانے کی عوتیں چرخہ کاتتے ہوئے پونی کو کھینچتی تھیں۔ اُن کی ہر گالی مثنوی ہوتی ہے۔میں اور آپ تو گالی دیتے وقت یوں گالی دیتے ہیں جیسے لوہار لوہے پر ہتھوڑا مارتا ہے لیکن صادق صاحب ہر گالی تو نہیں کوئی کوئی گالی یوں دیتے ہیں جیسے کمہار چکے پر برتن بنا رہا ہوتا ہے۔

مثلاَ ’اُ ن کی ماں کو‘ آگے پردہ دار حصوں کااستعمال کرنے سے پہلے محلِ وقوع بیان کرنے لگتے ہیں ، اُس کی ماں کو جو پچھلے سال جنوری میں زکام میں مبتلا ہو گئیں تھیں۔ کسی نیم حکیم کا علاج کرواتے کرواتے ،دمہ کا شکار ہو گئیں۔ پھر دو ماہ ہسپتال رہنے کے بعدجب باہر آئیں تو معدے کے عارضے میں مبتلا رہیں اور پھر معدے کے علاج کے لئے دوبارہ ہسپتال میں داخل ہو گئیں۔

اس دوران گھر کاکوئی فرد اُن کی توجہ اس جانب مبذول کرا دیتا ہے کہ وہ عائشہ نہیں تھیں ، عائشہ کی بڑی بہن نصرت تھیں۔ وہ یہ کہنے لگتے کہ اب وہ عمر نہیں رہی اس لئے حافظہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ وہ پردہ دار حصوں سے فائر کرنا بھول جاتے اور چھوٹی بہن کے بارے میں دریافت کرنے لگتے کہ اچھا اچھا اُن کے تو گھٹنے میں درد ہوئی تھی اور حکیم اللہ وسایا سے علاج کرواتی رہیں تھیں بعد میں مست علی کے دربار سے پتھر اُٹھالائیں تھیں جسے گوڈے پر پھیرتے رہنے سے اُس کا درد جاتا رہا تھا۔

اس طرح گالی کا سارا اثر جاتا رہتا ہے جیسے کریلوں کو نچوڑ کر اُن کا زہریلا پانی خارج کر دیا جاتا ہے۔جب ہم ہائی سکول میں پڑھتے تھے تو ہائی سکول کے نزدیک ایک گاؤں کے خواتین کے گالیوں کے میچ چلا کرتے تھے۔ان میں سے کوئی میچ بھی ون ڈے نہ ہوتا تھا سب ٹیسٹ میچ ہوتے تھے۔دوگھنٹے کے میچ کے بعد اگر کھانے کا وقت ہو جاتا ہے تو فائر بندی ہو جاتی تھی۔

لڑتے لڑتے ایک عورت کہتی مجھے پہلے روٹی پانی کر لینے دو پھر میں تم سے نبٹتی ہوں۔ دوسری کہتی میں بھی اتنی فارغ نہیں کہ ہوا میں سر کھپاتی رہوں۔اس طرح اس میچ کا وقفہ ہو جاتا تھا۔ عام طور پر یہ خواتین پڑوسی ہوا کرتی تھیں۔ دیوار چھوٹی ہونے کی وجہ سے جھانک لیتی تھیں کہ دوسری فارغ ہوئی ہے یا نہیں۔ جونہی انہیں فراغت ہوتی ایک طرف سے فائر ہوتا اور پھر باقائدہ لڑائی شروع ہو جاتی پھر اس گھمسان کا رن پڑتا تھا کہ کوئی راہ گیر بھی خالی نہ جاتا تھا۔ کئی راہ گیر چھینٹوں کے پڑنے کے خوف سے راہ ہی بدل لیتے تھے۔اب کرکٹ میچوں کی طرح وقت کی قلت کی وجہ سے نثری گالیوں کا استعمال بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔پرانے زمانے کے لوگوں کی طبیعت میں بہت ٹھہراؤ تھا جس کی وجہ سے یہ صنف زندہ تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :