ہم اور ہمارے مسیحا

جمعہ 25 اپریل 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

ڈاکٹر خالد اُن دنوں دور دراز کے ایک بنیادی مرکز صحت میں تعینات تھے۔انہوں نے مجھے خط لکھا کہ تنہائی اور اُداسی بہت ڈستی ہے اس لئے اگر ہو سکے تو مجھے جلد ملنے یہاں آؤ۔ڈاکٹرصاحب کی اس کیفیت نے مجھے پریشان کر کے رکھ دیا۔میں نے اپنا رختِ سفر باندھا اور چل پڑا۔ میں نے سسپنس کا لطف اٹھانے کی خاطر ڈاکٹر صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع نہ کی۔

طویل سفر کے بعد شام کے وقت میں ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی پر پہنچ گیا۔دروازہ کھٹکھٹایا تو خود ہی ایک لمبی سے کون کہتے ہوئے آئے۔کہا جناب تعارف بھی کروا دیتے ہیں پہلے دروازہ تو کھولئے۔آواز پہچان گئے، اس لئے اپنے مخصوص قہقہے کے ساتھ دروازہ کھولتے ہی اوئے تُو کہتے ہوئے بغل گیر ہو گئے۔ جب دونوں طرف کے جذبات کی لہروں میں ٹھہراؤ پیدا ہوا تو باتوں کا دور شروع ہوا۔

(جاری ہے)

پوچھا کہ اتنے مریضوں کے ہوتے ہوئے اور اتنے ہسپتال کے عملہ کے باوجود تم پر تنہائی اور اُداسی کیوں طاری ہے۔ کہنے لگے گاؤں کے کچھ لوگ میرے آنے سے بہت خوش ہیں جبکہ کچھ لوگ بہت تنگ ہیں۔پوچھا کہ کون لوگ خوش ہیں اور کون لوگ تنگ ہیں۔ کہنے لگے، تنگ تو وہ لوگ ہیں جو بنیادی مرکز صحت کی گورنمنٹ کی طرف سے فراہم کردہ دواؤں کو فروخت کرتے تھے اور خوش وہ لوگ ہیں جو مفت ہسپتال سے دوائیں لے رہے ہیں۔

ہسپتال کے باہر واحد میڈیکل سٹور والابھی میرے جانے کی پچھلی رات کو اُٹھ کر گڑ گڑا کر دعائیں کر رہا ہے۔ پوچھا کہ اُسے کیا تکلیف ہے۔ کہنے لگے اصل تکلیف تو انہیں کو ہے ۔پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگے، ماضی میں ہسپتال کا عملہ گورنمنٹ کی طرف سے فراہم کردہ دوائیں اونے پونے میں اس میڈیکل سٹور والے کو فروخت کر دیتے تھے۔ڈاکٹر صاحب وہی دوائیں پرچی پر لکھ لکھ کر دیتے رہتے تھے کہ یہ دوائیں ہسپتال میں مو جود نہیں ، اس لئے باہر سے خریدیں۔

لوگ اس میڈیکل سٹور والے سے وہی دوائیں خریدتے رہتے تھے۔اس طرح ہسپتال کے عملے اور میڈیکل سٹور والے کے گلشن کا کاروبار چلتا رہتا تھاجبکہ مریضوں کے گلشن میں اُلو بولتے رہتے تھے۔تمہیں ایک مزے دار واقعہ سناتا ہوں،پہلو بدل کر ڈاکٹر صاحب سنانے لگے۔ ایک دن اس گاؤں کے سردارکے گھر سے سندیسہ آیا کہ ہم نے سرہانے بھروانے ہیں اس لئے روئی بھیجیں۔

میں نے پیغامبر سے کہا کہ سردار صاحب کے گھر والوں سے کہنا کہ وہ اور ڈاکٹر تھے جو گدوں کے لئے روئی بھجواتے تھے، ہم روئی بھجوانے والوں میں سے نہیں، روائی منگوانے والوں میں سے ہیں۔مجھے سمجھ نہ آئی کہ ہسپتالوں کو گورنمنٹ سرہانوں کے لئے اتنی روئی کیوں دیتی ہے، اس لئے میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ ڈاکٹروں کو اتنے سرہانوں اور رضائیوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ گورنمنٹ کو روئی فراہم کرنا پڑتا ہے۔

ہنس کر کہنے لگے، او نئیں یار، یہ روئی زخموں کو صاف کرنے کے لئے، انجکشن کی جگہ پر سپرٹ لگانے کے لئے اور اسی طرح کے کئی دوسرے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے فراہم کی جاتی ہے ۔سردار لوگ یہ روئی گدوں اور رضائیوں کو بھروانے کے لئے مانگ لیتے ہیں۔ڈاکٹر حضرات اپنی نوکری کو بچانے کے لئے سرداروں کے گھر روئی بھجواتے رہتے تھے۔ سردار کے گھر والوں نے میری شکایت سردار صاحب سے کر دی کہ ڈاکٹر تو تھوڑی سی روئی بھی نہیں دیتا۔

سردار صاحب بہت جی دار آدمی ہیں، ہنس کر کہنے لگے کہ تم جیسے لوگوں کے لئے اسی طرح کے ہی ڈاکٹر ہونے چاہییں۔آج جب اخبار میں یہ خبر پڑھی ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے وزیرِ اعلٰی پنجاب کے پروگرام برائے بنیاری مراکز صحت کو ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کے تحت 247 رورل ہیلتھ سنٹروں میں تعینات135 ڈاکٹروں سمیت1200 ملازمین کے بیروزگر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

دیہی علاقوں میں ان 247 بنیادی مراکز صحت پر ماہانہ ساڑھے پانچ لاکھ افراد طبی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں جو منصوبہ ختم ہونے پر شہر سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہو جائیں گے۔زچہ بچہ کی شرح اموات میں اضافہ ہو جائے گی۔یہ کہ ضلع میں پہلے ہی طبی سہلویات کا فقدان ہے اور مریضوں کو فری ادویات سمیت ڈاکٹروں اور مراکزصحت کی کمی کی شکایات ہیں۔

پی آر ایس پی پروگرام کے تحت ایک روپیہ پرچی کے عوض مریضوں کو فری ادویات دی جا رہی ہیں پروگرام ختم کرنے سے بنیادی طبی سہولیات کا فقدان ہو جائے گا۔ضلع میں پروگرام کو ختم کرنے یا سمری مسترد کئے جانے کا حتمی فیصلہ چند روز میں متوقع ہے۔گورنمنٹ تو انتہائی خلوص سے ہمارے فائدے کے لئے منصوبے شروع کرتی ہے لیکن ہم پرخلوص طریقے سے انہیں ناکام کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جاتے ہیں۔

یہ گورنمنٹ کی ہمت ہوتی ہے یا منصوبے کی اچھی قسمت جو کامیاب ہو جائے ورنہ ہم اپنی سی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔اگر گورنمنٹ ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے اپنا دامن سمیٹنے لگتی ہے تو ہم بین کرنے لگتے ہیں کہ منصوبہ بند ہونے سے ہم بے روزگار ہو جائیں گے ،ہم مارے جائیں گے لیکن ہمیں وقت سے پہلے یہ سوچ نہیں آتی کہ ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے کہیں گورنمنٹ اپنا پھیلا ہوا دامن ہی نہ سمیٹ لے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :