ہٹلر کا زرعی اصلاحات کا پروگرام

جمعرات 6 نومبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

یہ رپورٹ ہٹلر کے زرعی اصلاحات کے پروگرام پر مبنی ہے۔یہ اُس نے پارٹی منشو کے طور پر 1930 میں لکھی۔چوراسی سال گزرنے
کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی ابھی لکھی گئی ہو۔چوراسی سال قبل ہٹلر نے زراعت کو ترقی دے کر صنعت کو ترقی دی اور آج اُن کی قوم پھدکتی پھر رہی ہے۔رپورٹ ملاحضہ فرمائیں۔
جرمن قوم اپنی خوراک کا بڑا حصہ غیر ممالک سے درآمد کرتی ہے۔

ان ممالک سے آنے والی اشیاء خوراک کی قیمت زیادہ تر غیر ممالک سے حاصل کردہ قرضے کی مدد سے ادا کرنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے جرمن قوم بین الاقوامی سرمایہ داروں کے قرض تلے دبتی چلی جا رہی ہے جو کہ اسے قرضے دے رہے ہیں۔ اگر یہ صورت حال جاری رہی تو جرمن قوم کا افلاس و غربت بڑھتی ہی جائے گی اور اسے کبھی خوشحالی نصیب نہ ہوگی۔

(جاری ہے)

اس لئے جرمنی اپنی روزمرہ اشیاء خوراک خود پیدا کرے۔


اب جرمن قوم کے لئے اپنی زرعی پیداورا کو بڑھانا زندگی موت کا سوال بن گیا ہے۔صنعت و حرفت بھی تب ہی ترقی کر سکتی ہے جب زراعت ترقی کریگی۔ اس طرح کسانوں کے پاس پیشہ آئے گا تو وہ اشیاء خریدنے بازار جائیں گے۔ اس طرح اشیاء کی طلب بڑھے گی اور طلب بڑھنے سے کارخانے مزید اشیاء تیار کریں گے اور اس طرح خوشحالی کا پہیہ چلتا چلا جائے گا۔زرعی ترقی میں بہت سی رکاوٹیں ہیں ان میں بڑی رکاوٹ کسانوں کو بر وقت قرضوں کا نہ ملنا ہے۔

اس طرح وہ بروقت قرضہ حاصل نہ ہوسکنے کی وجہ سے زرعی ضروریات کے لئے ضروری سازو سامان بروقت حاصل نہیں کر سکتے۔
زراعت سے کاشتکاروں کو اپنی محنت کا پورا پورا معاوضہ حاصل نہیں ہوتا اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔
۱۔یہودیوں کا پارلیمنٹ پر اثر ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ جرمن زراعت کو تباہ کر دیں تاکہ جرمن قوم مزدوری پیشہ ہو کر ان کی دست نگر رہے۔


۲۔تھوک فروش آڑھتی اور دکاندار جو کاشتکاروں اور خریداروں کے درمیان بیٹھے ہیں خود تو بہت سا نفع حاصل کر رہے ہیں لیکن کسان کی جھولی میں کچھ نہیں پڑنے دیتے ۔
۳۔کسانوں کو بجلی ، مصنوعی کھاد اور دیگر ضروریات کے لئے جن کی تجارت زیادہ تر یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح کاشتکاری سے کسانوں کو جو محدود سا منافع حاصل ہوتا ہے وہ بڑھے ہوئے سرکاری محصولات کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا اس لئے انہیں بہت بھاری شرح سود پر قرض لینے کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے۔

آخر جو کچھ بھی اس کے پاس ہوتا ہے اسے اپنے قرض خواہ یہودی کے حوالے کر کے خود ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ رہتا ہے۔
ہماری جماعت زراعت کے شعبے میں مندرجہ ذیل اصلاحات کرے گی۔
۱۔کسانوں کو قرضہ حکومت دے گی یا حکومت کی انجمنیں قرضے دیں گی۔
۲۔حکومت کے مقرر کردہ محصولات کسانوں کو ادا کرنا ہونگے
۳۔حکومت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ مناسب معاوضہ ادا کرے ہر ایک ٹکڑہ ِ زمین پر مندرجہ ذیل حالات میں قبضہ حاصل کر سکے۔


ٰا۔جب کہ وہ قوم کے کسی فرد کے قبضے میں نہ ہو۔
ب۔جب کسی عدالت کے فیصلے سے یہ قرار دیا جائے کہ اس کا مالک ٹھیک طور پر کاشت نہ کرنے یا اس زمین کے استعمال میں قومی مفاد کو مد نظر نہ رکھنے سے اپنے اپنے حقِ ملکیت کو زائل کر چکا ہے۔
پ۔جب کاشتکار کسی وجہ سے خود کاشت نہ کرتا ہو تو آزاد کاشتکاروں کو آباد کر دیا جائے گا۔
ت۔جب حکومت کو کسی قومی مفاد کے پیشِ نظر مثلاَ سڑک وغیرہ نکالنے کے لئے کسی جگہ سے زمین کی ضرورت پڑے تو وہ استعمال کرنے کی مجاز ہوگی۔


ٹ۔ناجائز طور پر حاصل کی گئی زمین بحق سرکار ضبط کر لی جائے گی۔
ث۔زمین الاٹ کرتے وقت کاشتکاروں کی پیشہ ورانہ قابلیت کو پیشِ نظر رکھا جائے گا۔
ج۔کمزور کسانوں کے قرضے معاف کر دئیے جائیں گے۔
چ۔قرضوں پر شرح سود کم سے کم رکھی جائے گی۔
ح۔زرعی پیداوار کی قیمت مقرر کر کے بازاری اتار چڑھاؤ کو قابو کیا جائے گا اور بڑے سرمایہ دار، دلال ، آڑھتی وغیرہ نے جو لوٹ کھسوٹ مچا رکھی ہے اس کا تدارک کیا جائے گا۔


خ۔اخراجات کاشتکاری کو حتی الوسع کم سے کم کیا جائے گا۔ اس غرض کے لئے کسانوں کو برائے نام معاوضے پر آسان شرائط پر آلاتِ زراعت ،کھاد، بیج ، زرعی ادویات و دیگر اشیائی فراہم کی جائیں گی۔
د۔حکومتی سطح پر زرعی تحقیقات کا کام کیا جائے گا اور اس کے نتائج کا پرچار عوام اور کسانوں میں کیا جائے گا۔
ڈ۔زراعت کی فنی تعلیم دی جائے گی اس غرض کے لئے نوجوانوں کے لئے زراعتی سکول اور کالج قائم کئے جائیں گے جہاں انہیں زراعت کی تعلیم دی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :