تعصب

جمعرات 24 ستمبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

سیاست ہماری قوم کی رگوں میں خون کی طرح رچ بس گئی ہے ۔ اس طرح کہ ایک ٹھیلے والا بھی سیاست کے ہر پہلو پر بے تکان بات کرتا ہے ۔معلومات کا درست یا مستند ہونا ضروری نہیں ۔ جس قدر ٹاک شوز پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز پر پیش کئے جاتے ہیں یا سیاسی کالمز لکھے جاتے ہیں اس کی مثال شائد ہی دنیا بھر میں کہیں موجود ہونتیجہ لیکن ڈھاک کے تین پات۔


کبھی کبھار سیاست سے انسان اس قدر اوبھ جاتا ہے کہ محفل میں بیٹھا کوئی دوسرا شخص اس موضوع پر بات کرے بھی تو بے چینی شروع ہوجاتی ہے ۔ نظریاتی اختلاف بری بات نہیں لیکن ہماری سیاست ”تعصبات “ کی اسیر ہے ۔ تعصب ، میرے گاوٴں کا بی اے پاس نوجوان دکاندار نوید بھی جس کی تباہ کاریوں سے نالاں ہے ۔ سیاست کے بارے میں نوید کی معلومات بالکل واجبی سی ہیں لیکن کئی بار مجھے وہ کہ چکا ہے کہ ” سرجی تعصب دے خلاف کج لکھو ،اے بڑی بھیڑی شے اے “ (سر تعصب بہت بری چیز ہے کبھی اس کے خلاف بھی کچھ لکھیں )۔

(جاری ہے)


گزشتہ رمضان المبارک میں عصر حاضر کے عظیم روحانی سکالر خواجہ شمس الدین عظیمی کی خدمت میں حاضر ہواتو نہایت شفقت سے پیش آئے ۔ عظیمی صاحب انتہائی زبردست شخصیت کے مالک ہیں ،حُب جاہ سے کوسوں دور اور استغنٰی کی دولت سے مالامال ۔ تصوف یاروحانیت کے شعبے میں آپ کی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا جاتا ہے ۔ برطانیہ کے معروف اشاعتی ادارے ”واٹکنزبُکس“ نے بھی اپنے مجلے MIND BODY SPIRITمیں دنیا کی ایک سو بااثر شخصیات کی فہرست میں عظیمی صاحب کا نام شامل کیا ہے ۔

ہم پاکستانی مگر اس انمول ہیرے کی وہ قدر نہیں کرسکے جس کے وہ لائق ہیں ۔
درویش کو طلب تھی متاع خلو ص کی
مخلوق چپ رہی کہ یہ مشکل سوال تھا
وقت رخصت عظیمی صاحب نے اپنی کتاب” احسان و تصوف“ اور ”خطبات ملتان“سے نواز ا۔ احسان و تصوف کی ورق گردانی کی تو کچھ دیر میں ذہن مرتکز ہوگیا۔ یا اوللعجب ، کیا کمال تحریر ہے ۔ تھوڑا غور کریں تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ تصوف یا روحانیت اول سے آخر تک اپنے پیروکار کو ہر وقت اور ہرطرح کے تعصب سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔

کوئی شخص اس وقت تک سچا صوفی ہو نہیں سکتا جب تک وہ ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر نہ ہوجائے ۔
”تصوف کی ابتدا ء کس طرح ہوئی اور تصوف کی شروعات کہاں سے ہوئی اس کے بارے میں تاریخ میں جو کچھ بیان ہوا ہے ایک معمہ ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ تصوف سب سے پہلے فارس میں نمودار ہوا۔ جب زرتشی عقائد دنیا میں پھیل گئے اور شام اور مصر سے یونان میں اور وہاں سے چین اور ہندوستان میں داخل ہوئے تو ان عقائد کے ساتھ ساتھ جو روایات عوام تک پہنچیں ان کو تصوف کا نام دے دیا گیا“۔


”یونانی لفظ تھیا سوفی کا ترجمہ ” حکمت خدا “ ہے ۔ اس نقطہ نگاہ سے صوفی کا اطلاق اس شخص پر کیاجائے گاجو اللہ تعالیٰ کی حکمت کا طلب گار ہو۔ یونانی لفظ کے مطابق سوفیا دراصل وہ بزرگ تھے جنہوں نے دوسرے مشاغل ترک کر کے اپنی زندگی RESEARCHمیں اور کائنات میں خالق کائنات کی حکمت کی تلاش کرنے میں صرف کردی“۔
حیر ت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا کے ہربڑے فلسفی نے تصوف کی انسانی زندگی میں ضرورت اور اہمیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے ۔


انسان کی عقل اور روحانی زندگی میں تصوف کی اہمیت کا اندازہ مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل کی اس تحریر سے ہوتا ہے ” دنیا میں جس قدر عظمیم فلسفی گزرے ہیں سب نے فلسفہ کے ساتھ ساتھ تصوف کی ضرورت کا اعتراف کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ دنیائے افکار میں انتہائی بلند مقام صرف سائنس اور تصوف کے اتحاد سے ہو سکتا ہے اور بہترین انسانی خوبیوں کا اظہار تصوف کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔


برٹرینڈسل نے دنیا کے نامور فلسفیوں پرقلیطوس،پارمینائڈیز ،افلاطون،اسپنوزا ،برونو،ہیگل ،برگساں اور وہائٹ کے نام بطور مثال پیش کئے ہیں ۔ فلاسفہ نے تصوف کی اہمیت پر مقالے بھی لکھے ہیں ۔ تصوف کیا ہے؟تصوف خالق اورمخلوق کے تعارف کا ذریعہ ہے ۔ تصوف سالک کے اوپر یہ حقیقت پوری طرح واضح کر دیتا ہے کہ انسان کا مادی جسم اور مادی جسم کے تمام تقاضے روح کے تابع ہیں ۔

روح کے بغیر مادی جسم DEAD BODY ہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سائنسدانوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ تصوف اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ عام تاثر اس کے برعکس اس لئے ہے کہ ہم نے تصوف یا روحانیت کو دم درود یا تعویز گنڈے تک محدود سمجھ لیا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں ۔
روئیس ایک جگہ لکھتا ہے کہ ” سب سے زیادہ بہترین انسان جو تجربہ کی بنیاد پر سفر کرتا ہے وہ صوفی ہے۔

وہ اپنے تجربات اور واردات کو ہر قسم کے خارجی معیار پر پرکھتا ہے ۔ اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ خالص حقیقت تک پہنچ جائے اور اس حقیقیت کو عام علمی زبان میں بیان کر سکے ۔ یعنی اسے بیان کرنے میں استدلال اور مشاہدے کی قوت حاصل ہو۔ سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ کوئی بات اس وقت قابل قبول ہے جب اس کے پیچھے دلیل ہو اور وہ بات مشاہدے میں آجائے ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسفہ ،تصوف اور سائنس کا طریقہ استدلال ایک ہے ۔ اب سائنس کا یہ فرض ہے کہ وہ صوفیانہ واردات کا کھوج لگائے اور ان تمام مشاہدات کو دلیل کے ساتھ پیش کرے جو آج تک شخصی اور ذاتی مشاہدات میں محدود سمجھی جاتی ہے“۔
”ولیم جیمز کے نزدیک ہر متصوفانہ واردات اور تجربہ قابل بیان ہوتا ہے ۔ اس تجربہ میں صوفی جس واردات سے گزرتا ہے وہ اسے محسوس کرتا ہے اور اور الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق محسوساتی دنیا سے نہیں ہوتا اس لئے وہ اسے مادی لباس نہیں پہنا سکتا ۔

غور کرنے سے علم حاصل ہوتا ہے کہ صرف متصوفانہ واردات ہی نہیں ہر جذباتی تجربہ بھی ذاتی ہوتا ہے ۔ جنانچہ ہر جذباتی تجربہ دوسرے تک منتقل نہیں ہوسکتا مثلاََمحبت کے جذبات کے بارے میں کسی دوسرے کو سمجھانا محا ل ہے ۔عشق کسی استدلال کا محتاج نہیں ہے اور بطورتجربات اور واردات ایک ذاتی کیفیت ہے جس میں کوئی دوسرا شامل نہیں ہوتا۔ “
” ایک مرید نے مراد سے پوچھا! اللہ سے دوستی کس طرح کی جائے ؟مراد نے مرید سے پوچھا!تم کسی سے دوستی کرنا چاہو تو کیا کروگے ؟مرید نے عرض کیا!اس کے ساتھ حسن اخلاق کا برتاوٴ کرینگے ۔

،ا س کی خاطر مدارت کریں گے اور اس کا خیال رکھیں گے ۔مراد نے کہا !اگر یہ باتیں نہیں کروگے یا تمھیں اس کے مواقع نہیں ملیں گے توپھر کیا ہوگا؟ مرید نے عرض کیا ہوسکتا ہے دوستی ختم ہوجائے ۔مراد نے فرمایا!دوستی اس وقت پختہ ہوتی ہے جب آدمی دوست کی دلچسپیوں کو قبول کر لے ۔اگر تم نمازی کے دوست بننا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردو، جوا کھیلنے والے کا دوست جواری ہوتا ہے اور نشہ کرنے والے کا دوست اگر اس کے ساتھ نشہ نہیں کرتا تو آپس میں دوستی نہیں ہوتی ۔

مراد نے مرید سے سوال کیاکہ ” اللہ تعالی ٰ کیا کرتے ہیں “مرید نے اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق ادھر ادھر کی بہت ساری باتیں کیں لیکن مراد نے قطع کلا م کر کے فرمایا ”مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے ،اللہ سے اگر دوستی کرنی ہے تو مخلوق کی خدمت کرو“۔مراد نے مزید تشریح فرمائی کیا تم نے بکر ی دیکھی ہے ؟مرید نے عرض کیا جی ہاں دیکھی ہے ۔

پوچھا بکری کیا کرتی ہے ؟مرید نے عرض کیا بکری دودھ دیتی ہے، لوگ اس کا گوشت کھاتے ہیں،اس کی کھال انسانوں کے کام آتی ہے ۔مراد نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہوا کہ بکری انسان کی خدمت میں مصروف ہے ۔ مراد نے پھر پوچھا زمین کی کیا ڈیوٹی ہے ؟زمین پر کھیتیاں لہلہاتی ہیں ،درختوں پر پھل لگتے ہیں،زمین انسان کو خوش کرنے کے لئے پھولوں میں رنگ آمیزی کرتی ہے ۔

مراد نے پوچھابکری اور زمین میں کیا رشتہ ہے ؟مرید نے عرض کیا !بکری زمین پر گھا س چرتی ہے اور درختوں کے پتے کھاتی ہے ۔مراد نے ارشاد فرمایا”کائناتی نظام یہ ہے کہ ہر شے دوسرے کی خدمت میں مصروف ہے جب غیر اشرف مخلوق اللہ کی مخلوق کی خدمت کر رہی ہے تو انسان کا بھی فرض ہے کہ مخلوقات کی خدمت کرے ۔ حضرت آدم علیہ اسلام پہلے صوفی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے باطنی علوم سکھائے ہیں ۔

باطنی علوم کا دوسرا نام تصوف ہے اور یہی علم حضرت آدم علیہ اسلام کا ورثہ ہے “۔
قارئین ان گزارشات سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جانور اور دوسری مخلوقات آپس میں تعصب نہیں پالتے اس لئے کہ وہ فطرت کے قریب ہیں ۔ اگر ہم انسان بھی آفاقی تعلیمات پر ان کی روح کے مطابق عمل کریں تو معاشرے سے تعصب ختم ہوجائے گااور یہ معاشرہ ،یہ ملک یہ دنیا امن کا پیکر اور خوشحالی کاگھر بن جائے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :