حکمران

جمعرات 10 ستمبر 2015

Hussain Jan

حُسین جان

وہ ترکی گھوڑئے پر سوار نہ ہوں گے،باریک کپڑا نہیں پہنے گے، چھنا ہوا آٹا نہیں کھایں گے،دروازے پر دربان نہیں رکھیں گے، اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھیں گے۔حضرت عمر جب کسی شخص کو کسی صوبے کا حاکم مقرر فرماتے تو مندرجہ بالہ پابندیاں بھی عائد کردیتے کہ اچھے لیڈر کے یہی اوصاف ہوتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ نہ صرف احسن سلوک سے رہے بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اُنہی کے جیسا دیکھائی بھی دے۔

پہناوہ سادہ ہو، رہن سہن فقیرانہ ہو۔ کھانا پینے میں اعتدال ہو۔ جب وہ کسی کو عامل مقرر کرتے تو اس کے پاس جس قدر مال و اسباب ہوتا تھا اُس کی ایک مفصل رپورٹ تیار کر لی جاتی تھی اور اگر عامل (حکمران یا گورنر) کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی تو اس سے مواخذہ کیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)


کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ زرداری صاحب اقتدار سے پہلے بھی اتنا ہی مال و زر رکھتے تھے۔

کیا یہ لمبی لمبی گاڑیاں ،بچوں کا باہر رہنا، بڑئے بڑئے محل نما مکان بنا کر ویران چھوڑ دینے، حکمرانی تو کرنی پاکستان میں لیکن اقتدار کا وقت پورا ہونے کے بعد کسی دوسرئے ملک میں جا کر کمائی ہوئی دولت سے داد عیش وصول کرنا۔ لندن ،دبئی کو دوسرا گھر قرار دینا، بیٹے کو سال میں ایک دفعہ پاکستان بھیج کر جیالوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے والے ، کیا ایسے لوگ عامل بننے کے قابل ہیں۔

ہماری قسمت دیکھیے کہ پاکستان کے امیر ترین لوگ ہی ہمارئے حکمران ہیں، یہ ایسے حکمران ہیں جب اپنا کاروبار کرتے ہیں تو اربوں روپے کماتے ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان سٹیل مل ان سے نہیں چلتی۔ نجی اےئر لاینز کو ہواؤں میں اُڑانے کا تجربہ رکھنے والے پی آئی اے کو نہیں بچا پائے۔ کروڑوں مرغیاں پالنے والوں سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ عوام کو حلال گوشت ہی مہیا کر دیا جائے۔

دودھ کا کاروبار دنوں میں چمک اُٹھا لیکن پاکستانی عوام دودھ کے نام پر پوڈر پینے پر مجبور ہے۔ یہ کیسے کاروباری حضرات ہیں جو اسٹیٹ کی فیکٹریوں کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے مگر زاتی فیکٹریوں کی دن دگنی رات چگنی ترقی ہو رہی ہے۔
کہا جاتا ہے حکومت جمہوری کا اصل زیور یہ ہے کہ حکمران ہر قسم کے حقوق میں عام آدمیوں کیساتھ برابری رکھتا ہو۔

یعنی وہ خود بھی کسی قانون سے مستثنیٰ نہ ہو۔ ملک کی آمدنی میں سے ضروریات زندگی نا لے سکے ، عام معاشرت میں اس کی حاکمانہ حثیت کا کچھ لحاظ نہ کیا جائے ،اس کے اختیارات صرف اورصرف عوام کی فلاح ہ بہود کے لیے ہوں ،کچھ لوگوں کے لیے یہ باتیں افسانوی ہو ں گی مگر حضرت عمر کے دور خلافت میں یہ امور جس درجے تک پہنچے تھے کہ اس سے زیادہ ممکن نہ تھے، اور یہ سب حکمران کے عمل کا کمال تھا کہ جو وہ لوگوں کو کہتے تھے وہ پہلے خود بھی کرتے تھے، مگر یہاں امیر و اشرافیہ اور حکمران ہر قسم کے قانون سے ممبرا ہیں، اگر کسی بڑئے آدمی کا بیٹا کسی غریب کے بچے کو قتل بھی کر دے تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔

ہمارے حکمران ملک کی آمدنی سے صرف اپنے پروٹوکول پر عربوں روپیہ لٹا دیتے ہیں۔ غیر ملکی دوروں پر عیاشی کی جاتی ہے۔ علاج کے لیے ملک کی آمدنی کو بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ بال بچوں کی شاپینگ تک کی جاتی ہے۔ کروڑوں روپیہ بینکوں میں ٹرانسفر ہو جاتا ہے مگر کسی کو پتا تک نہیں چلتا ۔ اختیارات تو یہاں تک ہیں کہ جب چاہیں جس کو چاہیں روند کر رکھ دیں۔

کسی غریب کو ان تک رسائی نہیں ایک دربان تو کیا سینکڑوں کی تعداد میں دربان بیٹھا رکھے ہیں کہ کہیں کوئی بھوکا ننگا نا آجائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اختیارات آگے اپنے رشتہ داروں تک کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ سب کی کوشش ہے جمہوریت بچ جائے عوام بھلے ہی کتے کی موت مر جائیں۔
ایک دفعہ حضرت عمر  بازار میں پھر رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی کہ عمر کیا عاملوں کے چند قوائد کے مقرر کرنے سے تم عذاب الہیٰ سے بچ جاؤ گے تم کو یہ خبر ہے کہ عیاض بن غنم جو مصر کا حکمران ہے باریک کپڑئے پہنتا ہے اور اس کے دروازے پر دربان مقرر ہے۔

حضرت عمر نے محمد بن مسلمہ کو بلایا اور کہا کہ عیاض کو جس حالت میں پاؤ ساتھ لے آؤ۔ محمد بن مسلمہ نے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ واقوقعی دروازے پر دربان تھا اور عیاض باریک کپڑے کا کرتہ پہنے بیٹھے تھے۔ اسی ہےئت اور لباس میں ساتھ لے کر مدنیہ روانہ ہوئے۔ حضرت عمر نے کرتہ اتروا کر کمل کا کرتہ پہنایا اور بکریوں کا ایک گلہ منگوا کر حکم دیا کہ جنگل میں لے جاکر چراؤ۔

عیاض کو انکار کی مجال نہ تھی ۔مگر بار بار کہتے تھے کہ اس سے مرجانا بہتر ہے۔ حضرت عمر نے فرمایاتجھ کو اس سے عار کیوں ہے تیرے باپ کانام غنم اسی وجہ سے پڑا تھا کہ وہ بکریاں چراتا تھا ۔ غرض عیاض نے دل سے توبہ کی اور جب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایات خوبصورتی سے انجام دیتے رہے۔ ایسے ہوتے ہیں حکمران جو خود کو عوام اور اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہوں۔

ہمارئے حکمران مغرب کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں ، کیا کبھی اُن کے حکمرانوں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ بھی اپنے ملک کے باشندوں کا مکمل خیال رکھتے ہیں۔ یہاں تھر میں سینکڑوں بچے مر جایں کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ بھوک پیاس اور افلاس کی ہمارے ہاں بہتات ہے مگر افسوس ان بیماریوں کو دور کرنے والا کوئی حکمران موجود نہیں۔ اقتدار کے مزئے لینے والے صرف اپنا اور اپنے کنبے کا سوچتے ہیں۔


ایک دفعہ اسلامی فوج نے کہا کہ فتوحات میں اگلی نسل کا کوئی حصہ نہیں صرف ہمارا ہے۔ عمر نے قران سے ثابت کیا کہ نہیں مال غنیمت اور مفتوح علاقوں میں اگلی نسل کا بھی حصہ ہے لہذا وہ حصہ ریاست کی تحویل میں دے دیا جاتا ۔ ہمارئے ہاں تو جو ہمارا ہے وہ بھی ہم تک نہیں پہنچتا، ملک میں زراعت ،تیل، نمک، سونا چاندی پتھر جو بھی نکلتا ہے اُس میں سے عوام کو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی سب مال کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔

اگلی نسلوں کے لیے آج کے حکمرانوں نے کیا بچانا ہے اُلٹا اُن کو قرضے میں ڈبو دیا ہے۔ ہمارے پچھلے حکمرانوں نے ہمیں جنگ کا تحفہ دیا جسے ہم آج تک بھگت رہے رہیں۔
ہماری فوج طالبان سے جنگ میں مصروف ہے، لیکن ہماری حکومت کہاں مصروف ہے، عوام کی فلاح و بہود کی زمہ داری فوج نہیں بلکہ حکمرانوں کی ہے جنہیں ووٹ دے کر منتخب کیا گیا ہے۔ شائد ہمارئے حکمران سوچ رہے ہوں گے کہ فوج جنگ سے فارغ ہو لے پھر عوامی فلاح کی طرف بھی فوج کو ہی لگائیں گے۔

اور اگر فوج آگئی تو پھر سب چیخیں گے۔ پہلے عوام کے لیے کچھ کرتے نہیں اورپھر فوج کے پیچھے پڑجاتے ہیں کہ فو ج نے مارشل لاء لگا کر ہمیں کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ ابھی بھی وقت ہے حکمرانوں کو عوام کے لیے بڑئے بڑئے منصوبے شروع کرنے ہوں گے جس سے عام آدمی کا طرز زندگی بد ل سکے۔ اسی میں سب کی بقا ہے۔ ورنہ انقلاب کا رستہ روکنا مشکل ہو جائے گا۔ کہ غریب کا جب پیٹ خالی ہو تو وہ تمام اخلاقیات کو اپنے پاؤں تلے روند دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :