سانحہ کراچی اور پنجاب حکومت کا گرتا ہوا گراف

بدھ 11 فروری 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

کراچی میں پیش آنے والے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے کچھ روز بعد میں نے اپنے کالم میں اس حادثے کے پیچھے کار فر ما طاقتوں کو بے نقاب کر نے کی کوشش کی تھی ۔ کہ کس طرح ایک لسانی جماعت اور اس کے مالی اخراجات پو را کر نے کے لئے اس کے مالیات ونگ کے بھتہ خوروں نے فیکٹری مالکان سے بھتے کی رقم پرمک مکا نہ ہو نے کی وجہ سے 257سے زائد لوگوں کی موجود گی میں فیکٹری کو آگ لگادی اور جس کے لئے ایسا خطر ناک آتش گیر مادہ استعمال کیا جس نے کچھ ہی لمحوں میں زندہ لوگوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔


بھتہ نہ ملنے پر اس طور پر غصے کا اظہار کیا کہ فائر بر گیڈ کی گاڑیوں کو ایک گھنٹے کے بعد بھی موقع پر نہیں پہنچنے دیا گیا جس کی وجہ سے تبا ہی میں مزید اضافہ ہوا۔اس ساری تباہی اور سینکڑوں لوگوں کو زندہ جلانے کے بعد بھی ان لوگوں کو بھتے کی رقم نہ ملنے کاشدید غصہ تھا جو انہوں نے فیکٹری مالک کیخلاف مقدمہ درج کرا کے ٹھنڈا کر نے کی کوشش کی، سندھ ہائیکورٹ سے ضمانت پر رہائی حاصل کر نے کے چند روز بعد ہی جماعت کے ایک تگڑے رہنما نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے مالکان کی ضمانت دو بارہ منسوخ کرا دی حتیٰ کہ سابق وزیر اعظم کی مدد سے لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت حاصل کر نے کے بعد جماعت کے اسی تگڑے رہنما نے مداخلت کی تو بے چارے وزیر اعظم کو بھی اس معا ملے سے پیچھے ہٹنا پڑااور یوں مقدمہ ختم کرا نے کے لئے اس اعلیٰ ترین عہدیدار کے فرنٹ مین نے مالکان سے 15کڑوڑ روپے وصول کئے۔

(جاری ہے)

یعنی 257افراد بھی زندہ جلے، فیکٹری بھی تباہ ہوئی اور بھتہ کی رقم بھی وصول۔
ڈھائی سال سے زائد عر صہ گذر نے کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سندھ ہائی کورٹ میں رینجرز کی طرف سے جو رپورٹ جمع کرائی ہے اس کے ذمہ داروں کا تعین تو سانحے کے اگلے روز ہی قانون نافظ کر نے والے اداروں نے کر لیا تھا لیکن اتنا عرصہ اس رپورٹ کو فائلوں کی زینت کیوں بنا یا گیایہ ایک لمحہء فکریہ ہے۔


قارئین !اس کالم کو تحریر کر نے کے دوران ٹیلیویژن سکرین پر رینجرزکی طرف سے سانحہ 12،مئی میں ملوث ٹا رگٹ کلر کی گر فتاری کی خبر بھی نشر ہورہی ہے جس نے کئی افراد کے قتل کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کا تعلق بھی اُسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہے۔ سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی رینجرز کی رپورٹ اورٹارگٹ کلر کی گرفتاری کے بعدکئی عرصے سے شہر قائد میں جاری خون کا بازار گرم رکھنے والے شر پسند عناصر کے چہروں سے نقاب اُٹھتے چلے جا رہے ہیں ۔

ضرورت اس ا مر کی ہے حکومت سمیت عدلیہ اور قانون نافذ کر نے والے ادارے ان لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر کے قرار واقعی سزادیں اور کیا ہی اچھا ہو کہ یہ تما م کیسز فی الفور فو جی عدالتوں کو ریفر کر تے ہوئے ہنگا می بنیادوں پر اس پر فیصلے کئے جائیں اور سیاسی مفادات سے با لا تر ہو کے ملک دشمن اور عوام دشمن عنا صر کا قلع قمع کیا جائے۔


قارئین کرام !مجھے بہت افسو س کہ ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ پنجاب جسے انتظامی معاملات اور امن و امان کے حوالے سے باقی صوبوں پر امتیاز حاصل تھا وہ اب کم ہو تا دکھائی دے رہا ہے۔تقریباََ ہر سر کاری دفتر میں کرپشن کا جن سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ”سانوں وی کج لاؤ“ کی پالیسی کو اختیار کئے افسران اُس شہری کے کام کو فوقیت دیتے ہیں جس نے ان کی مٹھی گرم کی ہو ،نہیں تو اپنے جائز کام کرا نے کے لئے عوام کئی دن تک ذلیل و خوار ہو نے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے دوبا رہ آنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔


افسر، افسرشاہی کے نشے میں اتنے مست ہیں کہ قانون نافذ کر نے والے اداروں کے انتظامی معاملات کو دیکھنے والے محکمہ داخلہ کے دفتر جہاں پہلے حساس فائلیں چوری ہوئیں اب ایڈیشنل سیکریٹری انٹر نل سیکورٹی کے دفتر سے اوون چوری ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمشنر، ڈی۔سی۔اوز اور تما م انتظامی ذمہ داران پٹرول کے سستہ ہونے کے باوجود اشیا ء خورد و نوش کی اشیا ء کے نرخوں میں کمی کر انے میں ناکام نظر آتے ہیں۔


محسوس ہو تا ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک بیورو کریسی اور افسر شاہی کا احتساب کر نے اور متحرک نظر آنے والے خادم اعلیٰ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں یر غمال بن چکے ہیں۔خادم اعلیٰ روزانہ ویڈیو لنک کے ذریعے کمشنرز اور ڈی۔سی۔اوز سے خطاب کرتے ہیں کہ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں اشیا ء کی قیمتوں کی کمی میں کیا اقدامات کئے گئے ہیں ۔یہ سب ویڈیو اجلاس سپیشل برانچ کے ایک اہلکار کی رپورٹ پر ہو تے ہیں جو خود دفتر میں بیٹھا ہی رپورٹ مرتب کر کے اپنے افسر کو دیتا ہے اور پھر یہ افسر خادم اعلیٰ اور چیف سیکر یٹری کو ویڈیو لنک پر ہی بریف کرتے ہیں ۔

اس طرح عملی طور پر پنجاب کی تما م حکومتی مشینری دفاتر اور کانفرسز ہال کی حد تک جمع تفریق میں اپنا تما م دن بر باد کر دیتی ہے۔افسر شاہی کی نا اہلیوں کی وجہ سے ایک طرف تو عوام ذخیروہ اندوزوں اور مہنگائی مافیاز کے ہاتھوں لُٹتی چلی جارہی جبکہ دوسری طرف خادم اعلیٰ کو سب اچھا ہے کی رپورٹ پیش اور کھانے پینے کی اشیا ء کو گرم اور ٹھنڈا رکھنے کے لئے 33لاکھ روپے کا کنٹینر خر ید کے ان کو بھی اپنا جیسا بنا نے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں،جس پنجاب حکومت کا مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے کی جانب دکھائی دے رہا ہے ۔

اگر خادم اعلیٰ پنجاب حقیقتاََامن، انصاف اور سکون کا گہوارہ بنا نا چاہتے ہیں تو انہیں ماڈل ٹا ؤن کے محلات سے باہر نکل کے مارکیٹوں اور بازاروں کا ہنگامی دورہ کر کے مہنگائی مافیا اور ان کے آلہ کارسر کاری افسروں کی فر عونیت کو کچل کے،سر کاری دفاتر میں کرپشن اور رشوت کا سدباب کر کے، انہیں عوام کا اصل معنوں میں خادم بنا نے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :