متاثرین وزیرستان کے ساتھ گذرے دو دن

بدھ 10 ستمبر 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ڈاکٹر آصف جاہ کا نام ملک وقوم کی وسیع تر خدمت کی وجہ سے” مسیحا“ کے طور پر طول و عرض میں پھیلتا جا رہا ہے۔ 2005کا تباہ کن زلزلہ ہو، 2008کا سیلاب، بلوچستان کے کئی شہروں کو تباہ کر نے والا زلزلہ ہو یا تھر کے ریگستانوں میں آنے والا قحط، متاثرین وزیرستان کی امداد و معاونت سمیت یہ اور ان کی پوری ٹیم پوری تند ہی کے ساتھ اگلے مورچوں پر کھڑی دکھائی دیتی اور اہلیان وطن کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان دکھوں کو کم کر نے کی کو ششوں میں دیوانہ وار مصرف عمل دکھائی دیتی ہے۔


میں نے ڈاکٹر صاحب کے فیس بک اکاؤنٹ پر 6،ستمبر کا دن متاثرین کے ساتھ گذارنے کا سٹیٹس دیکھا تو فوراََ انہیں فو ن کیا کہ میں بھی آپکے ساتھ جا نا چاہتا ہوں تو انہوں نے وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری خواہش کی تکمیل کی ، پھر اسی خواہش کو اپنے سینے میں دبائے جناب درویش کی خد مت میں حاضر ہوا اور انہیں اپنے آئندہ شیڈول کے بارے آگاہ کیا، یہ سننا تھا کہ انہوں نے بھی جانے کی آمادگی ظاہر کی اور حسب سابق ان کی خواہش بھی تکمیل کو پہنچی۔

(جاری ہے)

4، ستمبر کی طوفانی شب مجھے خالد صاحب کا فون آیا اور متاثرین بالخصوص بچوں کے لئے کپڑے خریدنے کی خواہش ظاہر کی، رات کے گیارہ بج چکے تھے اور بارش کی وجہ سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کی منظر پیش کر رہی تھیں ،میں چونکہ پچھلے دو دن سے بارش اور اس کی وجہ سے سڑکوں پر جمع ہونے والے پانی میں سفر کر کے شدید تھک گیا تھا ،لہذا میں نے انہیں ٹالنے کی بھر پو ر کو شش کی ،لیکن میری تما م تر کو شیشیں اس وقت ناکام ہو گئیں جب خالد صاحب کے کامل ارادے نے اپنا کمال دکھا یا۔

ایک تعلق والے کی سفارش کرا کے دوکان کھلائی اور پھر وہاں سے کپڑے لے کر رات کے 1بجے فارغ ہوئے۔
قارئین ! اگلے روز جمعے کا دن تھا اورہم نے سفر کے لئے روانہ ہو نا تھا ۔بارش اپنا سابقہ ریکارڈ تورتی دکھا ئی دے رہی تھی، نفس” خطر ناک موسم “کے وسوسے ڈال کر روکنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کاساتھ،عزم، ہمت اور استقامت ان وسوسوں پر حاوی آگئے اور پھر وسوسوں کا سینہ چاک کرتے ہوئے طافانی بارش کے باوجود ہم عازم سفر ہوئے۔

رات 10 بجے مردان میں کسٹم ہیلتھ سوسائٹی کے زیر اہتما م جس کی سر پرستی ڈاکٹر صاحب فر مارہے ہیں کے ہسپتال میں پہنچے ، بہترین ڈاکٹروں ، ٹیسٹوں اور گائنی کی سہو لیات سے مزین یہ ہسپتال 24گھنٹے کام کر رہا ہے۔مردان میں ہمارے میزبان اقبال صاحب کا دل ان کے گھرسے بھی وسیع تھا ، مہمان نوازی کی اتنی شاندار مثال میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھی۔
اگلے روز چونکہ 6،ستمبر تھا اور ہم نے یہ طے کیا تھا کہ یہ دن ہم بنوں میں متا ثرین کے کیمپوں میں بچوں کے ساتھ گذاریں گے۔

ہم نے علی الصبح ہی مردان سے بنو ں کے لئے سفر کا آغاز کیااور پشاور میں مقیم متاثرین کے کچھ خاندانوں کو راشن اور کپڑے وغیرہ دینے کے لئے کچھ دیر رکنے کا پروگرام بنا یا۔ یہاں بھی کافی تعداد میں وزیرستان سے آئے لوگ آباد ہیں جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر موجود ہیں۔
یہاں ایک گھنٹہ رکنے کے بعدہم بنو ں پہنچے جہاں سب سے پہلا پروگرام یتیم بچوں کے ایک ادارے میں منعقد تھا، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں نے6،ستمبر کی مناسبت سے قومی ترانہ، نغمے اور تقاریر کر کے ہمارے دلوں کو جلا بخشی۔

یہاں سے فارغ ہو کے ایک سکول میں واقع کیمپ میں پہنچے ، یہاں بھی پھول جیسے بچوں کی پیاری پیاری باتوں سے حاضرین مجلس لطف اندوز ہو تے رہے۔ یہاں میں بالخصوص ذکر کر نا چاہوں گا وزیرستان کی ” حرا“ کا جس کی نیلی اور سبز آنکھوں امید کے چراغ روشن ہیں۔ اس کا بھی پورا خاندان کیمپوں میں زندگی بسر کر نے پر مجبور ہے۔ بنوں اور اس کے مضافات میں کئے گئے سفراور متاثرین کی مشکلات پر لکھی ڈاکٹر صاحب نے اپنی آنے والی نئی کتاب کا نام بھی اس کی مناسبت سے ”حرا،ہجرت اور خدمت“ رکھا ہے۔

ہماری اگلی منزل بنوں سے 50کلو میٹر دور ایک مدرسے میں متاثرین کے لئے میڈیکل کیمپ کا انعقاد تھا، سیکڑوں لوگ یہاں موجود تھے جن کا معائنہ کر کے ادویات ، راشن اور ضروریات زندگی کی بعض دیگر چیزیں بھی دی گئیں۔
قارئین ! ان دو دنوں میں مجھے متاثرین وزیرستان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، ڈاکٹر صاحب کی کسٹم ہیلتھ سو سائٹی اور ملک ریاض کے بحریہ دستر خوانوں کے علاوہ مجھے حکومت سمیت کو ئی اور شخص وہا ں نظر نہیں آیا۔

مانا کہ خیبر پختونخواہ حکومت تو دھرنوں کے لئے ” ناچنے والوں “ کا انتظام کر نے میں مصروف ہے لیکن وفا ق سمیت چندوں کی اپیلیں کر نے والی پنجاب حکومت کا نما ئندہ ڈھو نڈنے کو بھی نہ ملا۔متاثرین کی مشکلات ہیں جو بڑھتی جارہی ہیں لیکن ان کے غم میں کچھ کمی لانے کے لئے کوئی اقدامات نظر نہیں آتے ۔ اندیشہ ہے کہ بنوں کے ایک بوڑھے کے بقول کہ جب ہمارے پاس تعلیم نہیں ہو گی، سڑکیں نہیں ہو نگی ، علاج نہیں ہو گا، نوکری نہیں ہو گی تو ہم بندوق ہی اٹھا ئیں گے کہ مصداق یہ آٹھ لاکھ لوگ بندوق کے زور پر اپنی زندگی کی اشد ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہمارے شہروں کا رخ کریں۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو اور ہمیں ان کے دکھوں کا مداوا کر نے کی توفیق حاصل ہو جائے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :