کلبھو شن کے دلدادہ ، ویسے ہی چیخ و پکار نہیں کر رہے

بدھ 13 اپریل 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

یہ پہلی دفعہ نہیں اس سے قبل بھی کئی دفعہ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جب بھی ملک دشمن عناصر کے گرد گھیرا تنگ ہو نا شروع ہو تا ہے، ان لوگوں کی ناپاک حرکتیں منظر عام پر لائی جاتی ہیں اور پھر جس کے نتیجے میں ان کے چیلوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، عین اسی وقت ڈالر اور پونڈز کھانے والے ان کے گماشتوں کے دل مچلنے شروع ہو جاتے ہیں۔

ان کی کوشش ہوتی ہے کہ چیخ و پکار کا ایسا سلسلہ شروع کیا جائے کہ لوگوں کو اصل مقصد سے ہٹا کر بے مقصدیت کی طرف دھکیلنے کے لئے پورا زور لگا یا جا ئے ۔ اب بھی جب ہمارے قومی اداروں نے دشمنان ملک کے خلاف کمر کسی ہو ئی ہے اور جس کے نتیجے میں عرصہ دراز سے ملکی استحکام کو کمزور کر نے اور یہاں خون کا بازار گرم رکھنے والے بھارتی بد نام زمانہ ایجنسی”را “ کے افسر اور اس کے آلہ کاروں کو بے نقاب کیا جارہا ہے ، اس موقع پر بھی ایک طوفان بد تمیزی کھڑا کر نے کی کوشش کی گئی جو ناکام و نامراد ٹہری ۔

(جاری ہے)

ایسے بد کرادار لوگ ،جنہوں نے کئی سالوں سے اپنی مذموم حر کتوں کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردی اور قوم پرستی کے زہر میں ڈبوئے رکھا ۔ جنہوں نے اپنے مقاصد کو پوارا کر نے کے لئے معصوم لوگوں کو جرم کی شاہراہ کا مسافر بنا یا اور کتنے ہی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
قارئین ! مجھے یاد ہے کہ ان دشمن عناصر کے خلاف بولنے والے چند ہی لوگ تھے جو یہ خبر دے رہے تھے کہ ملک کے امن و امان کو بر باد کر نے والے ”را“ کے لوگ سینہ چوڑا کر کے یہاں کام کر رہے ہیں ، ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے ۔

ان لوگوں میں اول اول حافظ سعید کا شمار کیا جا سکتا ہے جو ہر فورم پر یہ بات کرتے دکھائی دیتے تھے۔ لہذا کلبھو شن کے دلداہ لوگ کافی عرصے سے اس بات کا تعاقب کر رہے تھے کہ کس طرح ان کے خلاف چیخ و پکار کا سلسلہ شروع کیا جائے اور اپنے خالی ہوتے خزانوں کو ڈالروں سے بھرا جائے۔ جب کوئی ایسی چیز ان کے ہتھے نہیں چڑھی جس پر شور مچایا جاتا توانہوں نے ، را کے ایجنٹوں کے خلاف سب سے زیادہ بولنے والے حافظ سعید کے ادارے کی، بھونڈے طریقے سے کردار کشی کا آغاز کر دیا اور جس کے لئے میدان صحافت کے ایسے افراد کا تعاون حاصل کیا گیا کہ جن کا ماضی اور حال کسی سے پوشیدہ نہیں ۔

جو خود سب سے ذمہ دار میڈیا نیٹ ورک ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک اسے صحافت کی الف۔ ب کا بھی علم نہیں ۔ خبر میں جسے مدعی بنا کے پیش کیا گیااور جس کے پیٹ میں ثالثی کمیٹی کے خلاف مڑورے اٹھ رہے تھے، مصدقہ ذرائع کے مطا بق خالد سعید نامی یہ شخص اپنے آقاؤں کی طرح نسلی فراڈیہ ہے ۔ پراپرٹی کے نام پر کئی لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیاہوا ہے اور اس کا ماہر جانا جا تا ہے ۔

اعظم نامی شخص کی ایک کڑور روپے سے زائد کی رقم ڈکار کے معصوم بننے کی اداکاری کر رہا ہے ۔کئی پنجائیتوں میں وعدہ کرنے ،یہاں تک کہ مکہ و مدینہ کی قسم کھا کر بھی رقم دینے سے مسلسل انکاری ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ثالثی کو نسل کو مبینہ شرعی عدالت کا نام دے کر ایسے طریقہ سے خبر کو پیش کیا جیسے یہاں ایٹم بم تیار کیا جاتا ہو۔ متواتر کئی روز تک اس خبر کے ذریعے شر پھیلانے کی کوشش کی گئی ۔

جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں سمیت میں بھی اس ثالثی کونسل کے میرٹ پر مبنی فیصلوں کا شاہد ہوں۔ میرے ایک جاننے والے صاحب نے کچھ نا مساعد حالات کے سبب اپنی بیٹی کی خلع کے لئے جب عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا تو 8، مہینوں سے بھی زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود جج صاحب کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچے۔ جبکہ دوسری طرف لڑکے والے ، جہیز کے سامان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے بے دریغ ستعمال کرتے ہوئے اسے ناکارہ بنا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے ۔

شادی کے موقع پر دئیے گئے بیٹی کے طلائی زیورات بھی لڑکے والوں کے قبضے میں تھے ۔ یہ جب تک لڑکے والوں سے ان چیزوں کے بارے پوچھ نہیں سکتے تھے جب تک جج صاحب کو ئی حکم صادر نہ فر مادیں ۔ اس دوران ان کی بیٹی بھی شدید نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہو چکی تھی اور وہ خود بھی بہت سی بیماریوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ ان کی اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے میں نے جامعہ قادسیہ کی ثالثی کمیٹی کوان کا کیس ریفر کیا جنہوں نے کچھ ہی دنوں میں شواہد اور میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے پُر امن طریقے سے فیصلہ کر دیا ۔


قارئین محترم ! کون نہیں جانتا کہ ہمارا نظام انصاف اس قدر سست روی کا شکار ہے کہ کئی نسلیں انصاف کا منہ تکتی رہتی ہیں جس کا اظہار جسٹس ثاقب نثار نے بھی پچھلے دنوں کیا ، ان حالات میں جامعہ قادسیہ میں مو جود اور اس جیسی ثالثی کمیٹیاں لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ لیکن کتنے ظلم کی بات ہے کہ منافقت کا لبادہ اوڑھے ،سیکولر ازم کے جھنڈے تلے چیخ و پکار کر نے والے یہ افراداپنے مفادات کو پورا کر نے کے لئے ، ایسے معزز اداروں کو بد نام کر کے لوگوں سے مفت اور آسان، انصاف کی دولت بھی چھین کر ،اداروں کو مشکوک بنا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :