گارڈین عدالتیں اور چیف جسٹس سے درخواست

منگل 1 اپریل 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

وہ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا میرے سامنے بیٹھا تھا جس کی آنکھوں میں چھپا ہوا دردصاف دکھا ئی دے رہا تھا جو تھوڑی تھوڑی دیر اپنی معصوم بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے آنسوؤں کی صورت میں بھی چھلکتا نظر آرہا تھا۔ اولاد کی جدائی کے زہر میں ڈوبا یہ شخص کسی دیوانے کی مانند دو سال سے ایک عذاب کی سی زندگی گذاررہا ہے ایک دوست کے توسط سے ملنے آیا یہ شخص اپنی المناک داستان مجھے سنارہا تھا جسے سننے کے بعد میں بھی ڈپریشن کی کرب بھری گلیوں کا مسافر بن چکا تھا۔


سلیم ایک اعلیٰ سٹیٹس رکھنے والی فیملی کا چشم و چراغ ہے جس کی آج سے تین سال پہلے شادی ہوئی ، شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی میاں بیوی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بحث و تکرار شروع ہو گئی۔ ایک سال بعد اللہ نے انہیں اولاد سے نوازا لیکن معاملہ بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑتا رہا اور دونوں میں لڑائی شدت اختیار کرتی گئی ۔

(جاری ہے)

یوں کچھ ہی عرصے بعد چھوٹی موٹی باتیں دلوں میں نفرتوں کے بیج بوتی رہیں اور بالآخر بات بڑھتی بڑھتی طلاق کی نوبت تک جا پہنچی۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اپنی بیٹی کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھنے والا سلیم دو ماہ کے بعد صرف دو گھنٹے اپنی بیٹی سے ملتا ہے اور باقی دنوں میں اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کے پاگلوں کی طرح زندگی گذارتا دکھا ئی دیتا ہے۔
قارئین!ہمارا معاشرہ وہ بد نصیب معاشرہ ہے جہاں چھوٹی موٹی باتوں سے شروع ہونے والا سفر طلاق کی حد تک جا پہنچتا ہے اور پھر میاں بیوی کے لڑائی جھگڑوں کی قیمت ان کی اولاد کو چکا نا پڑتی ہے۔

ان کے درمیان علیحدگی سے پیدا ہونے والے مسائل کم سن و معصوم بچوں کے مستقبل کو تباہ و بر باد کر دیتے ہیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان جیسے واقعات میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو تا دکھائی دے رہا ہے۔بچوں کو ملنے والی ماں باپ کی غلطیوں کی اس سے بڑھ کے سزا اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں گھر کے پر سکون ماحول کی بجائے عدالتوں میں گھسیٹا جا تا رہے جہاں بھی والدین کی جھوٹی اناکا شکار ان بچوں کی معصوم خواہشات کو جدید کھلونوں ،نئے کپڑوں اور کھانے پینے کی اشیا ء جیسے مصنوعی تحائف میں دبا نے کی نا کام کو شش کی جاتی ہے۔

معصوم بچے عدالتوں کے درو دیوار کو حسرت بھری نگاہوں سے گھورتے مایوس لوٹ جاتے ہیں جو کسی عذاب سے کم نہیں اور پھر جس کی یاد پوری زندگی ان کے دماغوں سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ والدین کی جھوٹی انا کا شکار ہونے والے یہ معصوم بچے مختلف ذہنی امراض کے ساتھ ساتھ احسا س محرومی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں جس کے باعث یہ بڑے ہو کر معاشرے کے مفید شہری کا کردار ادا کر نے کی بجائے جرائم کی دنیا کے مسا فر بن جاتے ہیں ۔


قارئین محترم!میں پچھلے سال عید سے کچھ روز قبل گارڈین عدالت میں گذارے چند لمحات ہزار کوشش کے بعد بھی بھلا نہیں سکتا جہاں بچے اور والدین سسکیوں اور آہوں کے ساتھ ایک دوسرے کو ملتے دکھائی دے رہے تھے۔ملاقات کے بعد معصوم بچوں کے منہ سے ”ہائے ابو اور ہائے امی“کی چیخیں مجھ سمیت ہر شخص کی آنکھ نم کر رہی تھی ۔والدین اور بچوں کی ملاقاتوں میں کئی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

دو گھنٹوں کی ملاقات کے ختم ہو نے کے بعد بچے والدین سے لپٹ کر رونا شروع ہو جاتے ہیں۔گارڈین عدالتوں کا وحشت ناک ماحول اور اس پر معصوم بچوں کی معصوم خواہشیں ”ابو ! میں نے آپ کے ساتھ جانا ہے“سلیم جیسے انسانوں کو کرب اور درد میں لپٹی سانسوں کے ساتھ زندگی گذارنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شرح طلاق کی وجہ سے گارڈین عدالتوں میں اس طرح کے کیسز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔

6000سے زائد کیسز کے لئے صرف 4جج صاحبان موجو دہیں جن کی عدالتوں میں 300کیس روازنہ لگتے ہیں۔کئی دنوں کی سخت محنت کے بعد لوگوں کو اپنے جگر گوشوں کے ساتھ صرف دو گھنٹے گذارنے کی اجازت ملتی ہے ۔میرے دوست فہد احمد صدیقی جو اپنے طور پر گارڈین عدالتوں کے معاملات میں بہتری کی کوشش کر رہے ہیں اور جنہیں اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی جس پردرویش منش چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بچوں پر بُرے نفسیاتی اثرات کو روکنے کے لئے ان کی ملاقاتیں گارڈین عدالے کی بجائے چلڈرن کمپلیکس میں کرانے کے احکامات جاری کئے ہیں جو بیورو کریسی اور سیاستدانوں کی عدم توجہ کے باعث انتظار کی سولی پر لٹکے ہیں۔

میں یہاں چیف جسٹس صاحب سے یہ بھی درخواست کروں گا کہ ماں باپ کو بچوں سے ملنے کے لئے کم از کم ایک دن مہیا کیا جائے اور ان ملاقاتوں کا ایک سال کے لئے شیڈول جاری کیا جائے جس میں بچے اور ماں باپ کی سالگرہ اور اہم قومی تہوار میں ان سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ان اقدامات سے ماں باپ اور بچوں میں بڑھتی ہوئی نفرتیں نہ صرف کم ہو نگی بلکہ یہ چیزیں بچوں میں احساس محرومی اور ان کی نفسیات پر بُرے اثرات کے خاتمے کا سبب بھی بنیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :