اغوا ء کی وارداتیں، کتنا سچ کتنا جھوٹ

منگل 9 اگست 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

کئی روز سے میں ، میری بیگم اور ہم جیسے کئی والدین نفسیاتی مریض بنے ہوئے ہیں ۔ خوف اور وحشت کا اتنا غلبہ ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا ۔ شدید ذہنی دبا ؤ کی وجہ سے حالات یہاں تک آپہنچے ہیں کہ میں خود اورمیرے کئی تعلق والے ذہنی عارضہ میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔ یہ صرف کچھ گھر وں کی کہانی ہی نہیں بلکہ ہر درد دل رکھنے والے شہری کے حالات اس جیسے ہی ہیں۔

جس کی وجہ روز بروز شدید اور سنگین ہوتی بچوں کی اغواء کی خبریں ہیں ۔ بڑے تو بڑے خود بچے بھی اس خوفناک صورتحال کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہیں ۔ بابا!بچوں کو کون اٹھا رہا ہے؟ کون ان کے گردے اورآنکھیں نکال رہا ہے؟ کون ان کو بوری میں بند کر کے مار دیتا ہے؟ بابا! یہ کون لوگ ہیں ؟یہ سوالات روزانہ کئی بار میری 4، سالہ بیٹی میرے سامنے رکھتی ہے ۔

(جاری ہے)

اپنی طرف سے اسے مطمئن کر نے کی ناکام سی کوشش کرتے ہوئے کئی دنوں سے میں بھی ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آخر میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور سے کچھ روز میں سیکڑوں بچوں کو اغوا ء کر نیوالے یہ لوگ کون اور اس پر پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سکوت کیوں طاری ہے؟
قارئین کرام !اس سارے واقعے پر جب میں نے اپنے طور پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ واقعات میں حقیقت کم اور افواہوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہے ۔

اغواء کے واقعات تو ہیں لیکن اتنے زیادہ نہیں جتنے ہمارا الیکڑانک میڈیا اور اس میں سے بھی چند چینلز رپورٹ کر رہے ہیں ۔ لاہور پولیس کے سی۔سی۔پی۔او امین وینس، ڈی۔ آئی۔جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف اور تھانوں کے ریکارڈ کے مطابق یکم جنوری 2016سے 31جولائی2016تک شہر کے مختلف علاقوں سے 258بچے گھروں سے اغوا ء ، لاپتہ یا گم ہوئے جس میں سے 243بچے واپس آچکے ہیں ۔

جن میں سے 198بچے خود گھروں سے ناراض ہو کر گئے اور خود ہی واپس آگئے جبکہ 45بچے پولیس نے بازیاب کرائے اور باقی کچھ بچوں کی تلاش جا ری ہے ۔لیکن مصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ لاہور میں ایک سوزوکی بولان میں کچھ شر پسند عناصر متحرک ہیں جو لوگوں کو اغوا ء کر رہے ہیں ۔ پولیس حکام کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ میڈیا اور بعض لوگوں کی افرا تفری کی وجہ سے نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر آپ بچوں کے ساتھ بازار گئے ہوں اور اس کی خواہش پوری نہ ہونے پر بچہ رونا شروع کر دے تو آس پاس کے لوگ آپ کو مشکوک نظروں سے دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔

صرف مشکوک نگاہوں پر ہی اکتفا ء نہیں ہو گا بلکہ ایک گروہ آگے بڑھے گا اور بغیر کسی تصدیق کے آپ پر مکوں اور ٹھڈوں کی بارش کرنا شروع کر دے گا۔ جس کی تازہ مثال شہر لاہور کے مختلف علاقوں میں حالیہ دنوں میں ہمیں دیکھنے کو نظر آئی ہے ۔ایک ہفتے کے دوران شہریوں نے بیسیوں افراد کو اغوا ء کار سمجھ کر ایسا وحشیانہ تشدد کیا کہ کسی کا بازو ٹوٹا تو کسی کے منہ سے خون نکلا شروع ہو گیا ۔

غم زندگی اور بعض دوسرے غموں سے آنکھیں چرانے کے لئے نشہ آور ٹیکوں اور ادویات کا سہارا لینے والے لاہور کی سڑکوں پرآزادانہ گھومنے والے چرسیوں اور گلی گلی بھیک مانگتی بھکارنوں کو بھی شہریوں کے چھتروں کا سا منا کر پڑا ۔ اپنے دو سالہ بچے کو ویکسین پلانے لے جانے والا باپ اور غبارے بیچ کر اپنے گھر کا سہا را بننے والا شخص بھی عوامی غیظ و غضب سے نہ بچ پائے ۔


قارئین ! سانحہ ماڈل ٹاون میں اپنے پیٹی بھائیوں کو بڑوں کی غلطیوں کی سزا بھگتتے دیکھنے والی لاہور پولیس ،جوسانحہ یو حنا آباد میں مشتعل اور نفرت میں ڈوبے مشتعل ہجوم ، معصوم اور بے گنا ہ افراد کو جس اذیت ناک طریقے سے مار رہے تھے ، صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا ء کر رہی تھی ، اللہ کے کرم، امین وینس اور داکٹر حیدر اشرف کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے نتیجے میں جب پولیس کے مورال کو بلند کر نے میں اہم کاوشیں کیں جس کی وجہ سے موجودہ حالات میں مستعد اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لئے تیار، لاہور پولیس اگر فوری رسپانس نہ دیتی تو ہمارے گلی محلے معصوم اور بے گناہوں کی قتل گاہیں ثابت ہوتیں۔

لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایسے واقعات میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا ہے اور روزانہ درجنوں واقعات سامنے آرہے ہیں ۔
ایک مصدقہ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بچوں کی مبینہ اغواء کے آڑ میں لوگ اپنی ذاتی دشمنی یا عناد میں لوگوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں اغوا ء کار بنا کر پیش کیا جا تا ہے ۔ میرے نزدیک ایسی صورتحال بچوں کے اغوا ء کی افواہوں سے بھی زیادہ خطر ناک ہے ۔

کیونکہ لوگ جب چاہیں گے ، جہاں چاہیں گے اور جس طرح چاہیں گے اپنے مفادات کے لئے معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاریں گے اور پھر کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ خدارا!حکومت، پولیس ، قانون نافذ کرنے والے ادارے، میڈیا اور معاشرے کے با اثر لوگ اس بارے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے سے ان افواہوں کو ختم کر نے میں اپنا اپنا کردار ادا ء کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :