کمپنی کی مشہوری کے لئے

جمعہ 14 مارچ 2014

Fauzia Bhatti

فوزیہ بھٹی

اب اس سے زیادہ کیا کہیں کہ جون ایلیا نے کیا خوب کہہ دیا ہے
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زبان دراز کا منہ نوچ لے کوئی
کسی محلے میں ایک اچھی عورت اور ایک بری عورت آمنے سامنے رہا کرتیں تھیں۔اچھی عورت بری عورت سے اس کی زبان کے ڈر سے الجھنے سے گریز ہی برتتی تھی کہ اسے اپنی عزت سے بہت پیار تھامگر اس کے باوجود کسی بھی تو تڑاخ میں بری عورت اپنی زبان درازی کے جوہر دکھاتے ہوئے اچھی عورت کو ایک دو گالیوں سے بھی نواز دیا کرتی تھی۔

ایک مرتبہ اچھی عورت نے خود کو ہلّا شیری دیتے ہوئے یہ سمجھایا کہ جو گالیاں یہ مجھے دیتی ہے اب کے بار میں بھی یہی گالیاں اسے دے کر حساب برابر کر دوں گی۔اگلی معرکہ آرائی میں اس سے پہلے کہ بری عورت اپنی زبان کی تیزی دکھاتی اچھی عورت نے اسے وہ سب کہہ دیا جو وہ اسی سے سیکھتی رہی تھی پھر یوں ہوا کہ بری عورت نے ہر حد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے اس حدتک شرم ناک لفظوں سے لتاڑا کہ سرخ پڑتے چہرے اور سو سو من کے قدم اُٹھاتی اس اچھی عورت نے اپنے گھر کا دروازہ ہمیشہ کے لئے یہ سوچ کر بند کر دیا کہ وہ چاہے جتنی بھی بری بن جائے اس کے مقابلے میں ہار ہی جائے گی۔

(جاری ہے)

صحرائے تھر کی موجودہ صورتحال کسی بھی نئے سوال کو جنم نہیں دیتی کیونکہ یہ سامنے رکھی ہوئی ایک لکھی پڑھی سی بات ہے کہ پسماندہ علاقوں کے باسیوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتااور کیوں انسان سمجھا جائے؟بھلا وہ ہوتے کون ہیں اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھنے والے۔ان لوگوں کی قسمت ان لوگوں کا وہاں پیدا ہونا،اس ہوا میں سانس لیناکیا کم قصور ہیں؟ کمال حیرت سندھ حکومت کے ان کمانڈوز پرہے جو ہر چینل پر بغیر کسی وارننگ کے کھلے چھوڑے ہوئے ہیں یعنی کے آفرین ۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی پیپلز پارٹی پاکستانی عوام کو ہڈیوں سمیت پیٹ بھر نگل کر گئے ہیں اور جس کا ایک ہلکا پھلکاڈکارانہوں نے سندھ فیسٹیول کی صورت میں اُگلا ہے اس کے باوجود ان سب میں میں اتنی ہمت اور جوانمردی ہے کہ وہ ابھی بھی ہر سوال اُٹھانے والے پر اُلٹاانگلی اور یہاں تک کہ شاید ہاتھ بھی اُٹھانے سے گریز نہیں کر رہے۔بلیم گیم میں پی۔

ایچ۔ڈی رکھنے والے تمام ڈاکٹر حضرات اپنے اپنے ترکش سے وہ تیر ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال رہے ہیں کہ واہ،بھئی واہ بلکہ انے واہ۔ نثار کھوڑو صاحب کا کہنا ہے کہ اس سارے خرابے میں غلطی سندھ حکومت ہی نہیں ہے بلکہ ساری غلطی وہاں کی مقامی انتظامیہ کی ہے جنہوں نے اصل حقائق کو چھپایا ہے۔ اسی پارٹی کی ایک نئی نکور سپوکس پرسن کرنٹ افیئرز کے ا یک شو میں اس بات پر بے حد برہم نظر آئیں کہ انہیں وزیرِ اعظم کی اعلان کی گئی سو کروڑ کی رقم ملنے کا یقین ہی نہیں تھااور وہ اس بات پر بضد تھیں کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں ان کے مطابق وزیرِ اعظم صاحب کو یہ رقم یوں فی الفور ادا کرنی چاہئے تھی جیسے صرف یہ رقم ہی ان لوگوں کا آخری سہارا ہے ۔

جھگڑنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ اگر اگلے پانچ منٹ میں یہ رقم انہیں (پارٹی)کو نہ ملی تو خدانخواستہ کسی آسمانی آفت کا پیش خیمہ ہو گا۔نہ بھلا بندہ پوچھے باجی جی! آپ اور آپکی پارٹی نے وہ گندم جو ان لوگوں کا حق تھی وہ تک ان نہ کو بھیجنے میں مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیا ،ماضی قریب میںآ پ وفاق میں تھے صوبے میں تھے ۔تب ایسا کوئی انتظام یا حالات کیوں پیدا نہیں کئے گئے ؟کیا ان سارے حالات کا ذمہ پیپلز پارٹی مقامی انتظامیہ پر ڈال کر خود ہاتھ جھاڑ لے گی؟افسوس صد افسوس !کمال صرف یہیں تک نہیں کیا گیاآج قریباًتمام بڑے قومی اخبارات میں سندھ حکومت کی جانب سے "قیمتی ہے ہر زندگی"کے جو ہاف پیج اشتہارات لگائے گئے تھے۔

جس میں خیبر پختونخواہ کی جانب سے ملنے والی دس کروڑاور وفاق کی جانب سے ملنے والی ایک ارب کی امدادکو انتہائی کمپلیمنٹری اور ایک لاکھ بیس ہزار بوریوں کو انتہائی بولڈ کر کے لکھا گیا تھا۔علاوہ ازیں اشتہار میں تین ٹرکوں کی ،ایک ٹرک میں آٹے کی بوریوں کی اور ایک بوریاں لینے کے لئے آئے ہوئے لوگوں کی تصویریں اور تھر پارکر کی نو عمر بچی کی بھی ایک تصویر شامل ہے جسے ہائی لائٹ کیا گیا ہے (اللہ سے دعا ہے کہ وہ زندہ اور صحت مند ہو)۔

سب سے حیرت انگیز سٹیٹمنٹ جو اس اشتہار میں رہی وہ یہ تھی کہ "دشوار ترین موسمی حالات کے باوجود تھر پارکر میں زندگی کے تحفظ کو سو فیصد یقینی بنانے کے لئے ہم پر عظم اور مصروفِ عمل ہیں"۔ننھے منے اس دنیا سے بھوکے پیاسے چلے گئے رونگٹے کھڑی کر دینے والی اور ناقابلِ تلافی و معافی اس صورتحال پر بھی کیا ہمیں کمپنی کی" اس مشہوری "کی ضرورت تھی؟لو دسو یار!تھرپارکر کے گوداموں میں پڑیں سینتالیس ہزار گندم کی بوریوں میں سے صرف نو سو بوریاں تقسیم کرنے والی حکومت کو اب اس اشتہار چھپوانے سے زیادہ بہترین فونٹ اور درست سپیلنگ کے ساتھ اپنا اپنا استعفیٰ لکھنے کی ضرورت تھی۔

دو لاکھ سے زیادہ خاندان جو قحط سے متاثر ہیں اور جن کی مناسب دیکھ بھال کی اشدضرورت ہے جو کہ سندھ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کیا یہ اشتہار انکے کسی کام آسکے گا؟ اب اس سے زیادہ کیا کہیں کہ جون ایلیا نے کیا خوب کہہ دیا ہے
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زبان دراز کا منہ نوچ لے کوئی
چلتے چلتے قائم علی شاہ کے شکوے کا تذکرہ بھی کر دیں جو انہوں نے تھر کی مقامی خواتین کے گھونگھٹ سے متعلق کیا تھا۔عرض محض اتنی ہے کہ کبھی جو آپ ان گھونگھٹ میں روتی ماؤں کے آنسو پونچھنے گئے ہوتے تو آج آپ یہ شکوہ نہ کرتے۔
پاکستان کا خیال رکھئے یہ آپکا ہے۔اللہ سبحان و تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :