یمن پراکسی وار جنگ میں تبدیل لپیٹ میں کون کون آسکتا ہے؟

منگل 14 اپریل 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ یمن کی صورت حال کئی ممالک کے لئے پریشانی کا سبب بنے گی خود اس جنگ سے امریکہ پریشان نظر آتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سعودی عرب کی حمایت کررہا ہے ،جبکہ پاکستان تو وہ ملک ہے جس سے سب سے پہلے سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے رابطہ کیا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں مدد کی اور دنیا کا اصول اور فطری معاملہ ہے کہ تکلیف میں اپنوں کو ہی یاد کیا جاتا ہے ،مگر پاکستانی حکومت نے چند افراد کے پریشر میں آکر ایسی قرارداد پاس کی کہ جس کا کوئی واضح مطلب نہیں نکلتا اور ہم ثالثی کرینگے اگر حرمین کی طرف کوئی بڑھا تو ہم اس کے خلاف مکمل سعودی حمایت کرینگے ،وغیرہ وغیرہ،کیا وجہ ہے کہ حکومت چند اینکر پرسن جن کے مفادات اور نظریات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس سے اتنے مجبور ہیں ،حالانکہ حکومت کے پاس فیصلے کی اتھارٹی ہوتی ہے کئی بار امریکی صدر اوبامہ نے امریکی کانگرس کے فیصلوں کو بائی پاس کیا ہے مگر ادھر ایک ہم ہیں چونکہ جمہوریت کے چیےئمپین ہیں اس لئے سب کو ساتھ لیکر چلنا ہے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔

(جاری ہے)


دوسری جانب ایران نے ترکی اور پاکستانی سفیروں کو طلب کرکے یمن میں اپنی موجودگی اورحوثی باغیوں کی حمایت ثابت کردی ہے اور ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ پاکستان کو اس جنگ میں سعودی عرب کی حمایت سے دور کیا جائے اور اس کے لئے اس کی لابنگ کامیاب رہی ، میڈیا کا ایک بڑا طبقہ ایران کو معصوم ثابت کرنے کے لئے قسم قسم کی تاویلیں اور دلائل سامنے لانے کی کوشش کررہاتھا حوثی کون ہیں؟ یہ فرقہ ورانہ جنگ نہیں ہے یہ اقتدار کی جنگ ہے ،یہ ایران و سعودی بالادستی جنگ ہے ،پاکستان کو اس میں شامل نہیں ہونا چاہیئے،یہ تیل کی قیمتیں بڑھنے کے لئے شروع کی گئی جنگ ہے وغیرہ وغیرہ ہر طرف پروپیگنڈے کا زور ہے ہر ایک تجزیہ ،کالم رپورٹ اپنے مفادات اور نطریات کے تحفظ کے لئے تحریر کررہا ہے اور اصل صورت حال اور حقائق پر گرد وغبار ڈال کر چھپنے کی کوشش کررہا ہے،مگر ایسے کئی ثبوت اور ماضی کے ساتھ حال کے بیان اوروقعات موجود ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بلی تھیلی سے باہر آگئی ہے پراکسی وار اب میدانوں کارخ کرچکی ہے،کل تک مرگ بر امریکہ بزرگ شیطان امریکہ کہنے والوں کا دشمن اور محور بدل چکا ہے واشنگٹن سے ہدف ریاض بن چکا ہے ،نئے منظر نامے دشمن اور دوست بدل رہے ہیں اور کچھ لوگ جو خارجہ پالیسوں سے ناوقف ہیں پاکستان کو نئے مشورے دے رہے ہیں، حالانکہ خارجہ پالیسی اور تعلقات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں،اور پاکستان کا سعودی عرب کی مدد کرنا کئی لوگوں کو خار گذرتا ہے جو افراد اس قسم پروپیگنڈہ کررہے ہیں وہ دوسری طرف ایرانی رہبراعلی کے قریبی ساتھی علی رضا ذکانی کا تازہ بیان نظرانداز کرہے ہیں کہ جس میں اس نے کہا کہ تین عرب ممالک شام لبنان اور عراق ہماری جیب میں آچکے ہیں اور ریاض(سعودی عرب) کی باری ہے ،اس موضوع پر لکھنے سے قبل دو واقعات بڑی شدت سے ذہین میں یاد آرہے ہیں ان کا تذکیرہ کئے بغیر آگے جانا ٹھیک نہیں لگ رہا ،ماضی قریب میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی فتح بامیان اور مزار شریف میں شمالی اتحاد کے زیر استعمال ایرانی ہتھیار بڑی مقدار میں برآمد ہوئے جن پر امریکہ مخالف نعرے درج تھے اسی طرح نوے کی دہائی میں پاکستانی قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے بھی ایرانی اسلحہ ایک گروپ سے بڑی مقدار میں برآمد ہوچکا ہے،ایران بھی بلکل اسرائیل کی طرح گریٹر فارس کے خواب دیکھ رہا ہے اور کافی عرصے سے اس پر خاموشی سے کام کررہا ہے ۔


یمن میں جاری جنگ جس کا اگلا ہدف سعودی عرب ہے کیونکہ یمن وہ ملک ہے جس کا طویل بارڈر سعودی عرب سے لگتا ہے اسی بات کی نشاہدہی کرتا ہے جو علی رضا ذکانی نے گذشتہ دنوں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کی ،اس وقت جب ایک طرف حوثی باغیوں کے خلاف سعودی بمباری جاری ہے تو دوسری طرف مصر میں ہونے والے اجلاس میں عرب ممالک کا موقف سامنے آچکا ہے اور وہ پاکستان سے اچھی خبر کی امید رکھتے تھے مگر چند لبرلز کو خوش کرنے کے لئے ایسی قرارداد لائی گئی جس سے بردار ملک ناراض ہوسکتے ہیں کیونکہ ان عرب ممالک کے ساتھ ہمارا رشتہ صرف دینی نہیں بلکہ معاشی بھی ہے اور سعودی عرب نے تو ہر مشکل موڑ پر ہمارا ساتھ دیا آج ثالثی کا پیغام کیا معنی رکھتا ہے سوچنے کی بات ہے کیونکہ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ حوثیوں کو ایران کی مدد حاصل ہے ۔

یمن کے صدر عبدربہ ہادی منصور نے ایران پر اپنے ملک کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے حوثی باغیوں کو ایران کی کٹھ پتلیاں قرار دیا ہے ۔انھوں نے یہ بات مصر میں جاری عرب لیگ کے اجلاس کے پہلے دن اپنے خطاب میں کہی۔ ا یمن میں زمینی جنگ بھی ممکنہ طور پر ایجنڈے پر ہے ۔ادھر سعودی عرب نے کہا ہے کہ یمن میں عسکری کارروائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک محفوظ اور مستحکم نہیں ہو جاتا۔

۔یمنی صدر عبدربہ ہادی نے اپنے ملک میں حوثی باغیوں کے ہتھیار ڈالنے تک ان کے خلاف عسکری مہم جاری رکھنے کا مطالبہ بھی کیا۔حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے ۔ پراکسی وار میدان کے جنگ میں بدل چکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہ جنگ بڑی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہونے کو ہے اور اس جنگ سے خطے میں کیا کیا تبدیلیا ں آئیگی سب کے سامنے ہے مگر ہر ملک اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے سواء پاکستان کے کہ جس کی خارجہ پالیسی سمجھ سے باہر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :