سانحہ منیٰ اور اس کے اثرات

بدھ 30 ستمبر 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

سانحہ منیٰ جس سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک متاثر ہوئے لگ بھگ آٹھ سو کے قریب حاجی شہید ہوئے اور اتنی ہی تعداد زخمیوں کی سامنے آئی ہے،تاحال اس حادثے سے نمٹا جارہا ہے اور پوری امت مسلمہ کے لئے عید الاضحی کے خوشی کے موقع پر اس سانحے نے غمگین کردیا ہے،مگر ایسے حادثے کے بعد چند افراد کا سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلانا کسی دوسرے ملک کے ایجنڈے کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں فروغ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور وہ بھی حج جیسے عظیم اسلامی رکن کے انتظامات کے حوالے سے؟یہ عبادت تو ساڑھے چودہ سو سال سے جاری ہے اور ماضی میں بھی ایسے سانحات ہوچکے اللہ کرے کہ آئندہ نہ ہو ،مگراس کو سیاست اور پراکسی وار کے لئے استعمال کرنا بڑے خطرے کی نشاہدی کرتا ہے اور اگریہ سلسلہ نہ روکا تو مستقبل میں اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہ رہے گا ،اس وقت بھی پورا عالم اسلام جنگوں سے متاثر ہے اور مغرب بیٹھ کر یہ تماشہ دیکھ رہا ہے ،اور ایک ہم ہیں کہ خواب غفلت سے بیدار ہونا ہی نہیں چاہتے۔

(جاری ہے)


سعودی عرب کے حکمران خادم الحرمین الشریفن شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے منیٰ کے حادثے کے بعد حج کے سکیورٹی انتظامات کے از سرِ نو جائزے کا حکم سامنے آچکا ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ حج کے انتظامات اور حاجیوں کی نقل و حمل کے طریقہٴ کار کو بہتر بنایا جائے گا،اس کے علاوہ سعودی وزیرِ خارجہ جو اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہیں نے کہا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ ایرانی قیادت ہلاک ہونے والوں کی خاطر عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوے تحقیقات کے نتائج آنے کا انتظار کرے گی۔

سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ یہ دعویٰ بالکل چھوٹا اور شرانگیز ہے کہ منیٰ کی سڑکیں سعودی شاہی خاندان کے افراد کے قافلے کو گزارنے کے لیے بند کی گئی تھیں۔سعودی وزارتِ داخلہ کے مطابق یہ افواہ بظاہر ایران کے سرکاری ٹی وی نے پھیلائی ہے ۔
اس حادثے کے بعد سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان نے حاجیوں کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے انتظامات پر نظرثانی کا حکم دیا ہے تاہم سعودی عرب کے مفتی اعظم نے بھی کہا کہ یہ ایسا حادثہ تھا جسے روکنا انسانی اختیار سے باہر تھا۔


جبکہ دوسری جانب ایران کے رہبراعلی آیت اللہ خامنہ ای نے اتوار کو تہران میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بھلایا نہیں جائے گا اور اقوام اس کو سنجیدگی سے دیکھیں گی، ادھر اُدھر الزام تراشیاں کرنے کے بجائے ، سعودی عرب کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور مسلمانوں اور متاثرہ خاندانوں سے معافی مانگنی چاہیے ۔اس سے قبل ایرانی صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب میں حج کے دوران پیش آنے والے بھگڈر کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

انھوں نے بھگدڑ کے واقعے کو دل دہلا دینے والا قرار دیا۔ایران کی قومی سلامتی کونسل نے سعودی حکام پر نااہلی کا الزام لگاتے ہوئے ان سے ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔کونسل کے ترجمان کیوان خسروی نے خبر رساں ادارے اسنا کو بتایا کہ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سعودی حکومت حج کے انتظامات کے سلسلے میں نااہل ثابت ہوئی ہے اور سعودی عرب کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے ۔

سنیچر کو ایران کے پراسیکیوٹر جنرل سید ابراہیمر رئیسی نے سرکاری ٹی وی پر بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ایران کوشش کرے گا کہ سعودی شاہی خاندان کے جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے ۔
تاہم دوسری جانب سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ عادل الجبیر نے کہا ، کہ ایران ایک حادثے پر سیاست کر رہا ہے ۔یہ وہ صورت حال ہے کہ جس کی وجہ سے حج جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اس کو بھی سیاست کے لئے استعمال کیا جانا انتہائی خطرناک فعل ہے،اس سے مسائل کم نہیں ہونگے ،آنے والہ مہینہ محرم الحرام کا ہے اور ایران کی حکومت کربلا کے منتظمین میں پہلے نمبر پر ہے پہلے بھی کئی بار کربلا (عراق) میں کئی بھگدڑ اور سانحات ہوچکے ہیں جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے کیا وہ کنٹرول ہوسکا ہے ؟آئندہ بھی سانحات رونما ہوسکتے ہیں ،اتنی بڑھی تعداد میں عوام،زائرین،حاجیوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور پھر سب کی زبانیں مختلف ہونا، کس طرح گائیڈ کیا جاسکتا ہے؟ ہاں ان حاجیوں کو ان کے ممالک کی انتظامیہ جو کہ ہر ملک سے آئی ہوتی ہے وہ صیح رہنمائی کرسکتی ہے ،مگر ایسا نہ ہوا اور سب سے زیادہ اس وقت تک جاں بحق ہونے والے حاجیوں کی تعداد کا تعلق ایران سے سامنے آیا ہے کیا یہ ایران کے حج مشن کی ناکامی نہیں ہے ؟ایسا نہیں ہے کسی بھی ملک کے لئے اتنے بڑھے مجمع میں اپنے افراد کو منظم رکھنا مشکل ترین کام ہے،اس بہترین طریقہ اور حل یہی ہے کہ جن ممالک کو اعتراض ہے وہ باقاعدہ سعودی حکومت سے رابطہ کرے اور مل بیٹھ کر آنے والے سالوں کے لئے منصوبہ بندی کریں تاکہ سانحہ منیٰ جیسے حادثات دوبارہ نہ ہوں اور اگر ہوں بھی تو کم ازکم نقصان ہو،ورنہ ماضی میں توایک ملک کی عوام نے شدت جذبات میں اپنے رہنما کے کفن تک کو پھاڑ ڈالا اسے روکا نہ جسکا،سانحہ منیٰ پر پوری امت مسلمہ غم زدہ ہے اور اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ عیدالاضحی کے مقدس دن کے موقع پر چند شر پسند عناصر،سوشل میڈیا پر تفرقے کو فروغ دینے میں مصروف رہے،شائد ثواب سمجھ کر یا پھر ایجنڈہ سیٹنگ کے فروغ کے لئے ،خدارا اب بھی وقت ہے باز آجانے کا ،جنگوں میں خیر نہیں،تباہی ہی تباہی ہوتی ہے اگر کسی کو یقین نہ ہو تو جنگ سے تباہ افغانستان کو دیکھ لے اور اس سے قریب جنگ سے متاثر فاٹا جو کہ ہماراہی حصہ ہے دیکھ لے، شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ نہ سمجھو گے تو مٹ جاوگے،تمھارا نام بھی نہ ہوگا افسانوں میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :