وے میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

اتوار 6 ستمبر 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

ماں بھی کیا ہستی ہے کہ اولاد آنکھوں سے دور ہو تو راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتی ہے،سامنے ہوتو اسے دیکھتے نہیں تھکتی،اسے چومتی،اس کو پیار کرتی صبع شام ایک کردیتی ہے،یہ کیفیت باپ کی بھی ہوتی ہے،باپ شاید ماں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہولیکن وہ اپنی محبت کو چھپائے رکھتا ہے،والدین کے ہاں اولاد سے محبت کی کوئی تفریق نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ والدین بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہیں،اگر یہی قیمتی متاع بوڑھے ماں باپ سے جوانی میں چھن جائے تو ان کے غم کاتصور کرنا بھی ناممکن لگتا ہے،ایک باپ کیلئے جوان بیٹے کی میت اٹھانا دنیا کا سب بڑا بوجھ ہے،دنیا کا سب سے بڑا غم ہے،یہی بیٹا اگر اپنے وطن کی مٹی کیلئے لڑتے لڑتے جان اپنے رب کے حوالے کردیتا ہے تو وہ ماں باپ کیلئے بوجھ کے بجائے فخر بن جاتا ہے،ایسا فخر جس پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


کل تک دنیا پاکستان کو ایک ناکام اور بے کارریاست کا نام دینے پر لگی ہوئی تھی،طرح طرح کی باتیں،طعنے،لفنگوں جیسی آوازیں کسی جار ہی تھیں،آج کیا وجہ ہے کہ وہی لوگ سرمایہ لے کرپاک سرزمین کا رخ کررہے ہیں،مبصرین روشن پاکستان کی نوید دے رہے ہیں،مایوس لوگ باتیں کرتے رہیں گے کیوں کہ ان کو مایوسی پھیلانے کے ہی پیسے ملتے ہیں،وہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ہم بہتر ہورہے ہیں وہ تو زوال کا ہی ڈھنڈورا ہی پیٹتے رہیں گے۔

سوال یہاں یہ ہے کہ کیسے ممکن ہوا یہ سب،پھیلتی نفرت کے دیس میں محبت کے پھول کس نے کھلائے؟،بارود کی بو خوشبو میں کیسے بدلی؟،گلی محلوں میں لگی آگے کیسے بجھی؟سیاہ دھوؤں کے اٹھتے طوفانوں کا رخ کس نے موڑا؟مایوس چہروں پر امید کون لا رہا ہے؟
یہ کریڈٹ کسی سیاستدان کونہیں دیا جاسکتا جو اپنے مفاد کیلئے برسوں کی وفاداری کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیتا ہے،یہ کریڈٹ کسی آمر کو بھی نہیں دیا جاسکتا ہے جو اپنوں کیلئے فرعون تو دشمن کیلئے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے،اس کامیابی کا سہرا ان جوانوں کے نام جاتا ہے جو دوسروں کیلئے اپنی خوشیاں قربان کررہے ہیں،یہ کریڈٹ ان کو جاتا ہے جو جاگتے تو قوم سکون کی نیند سوتی ہے،جو قوم کے کل کیلئے اپنا آج قربان کررہے ہیں،جو اندھی غاروں میں بھی بن دیکھے دشمن کو ڈھونڈ ڈھنڈ کر ماررہے ہیں،یہ کریڈٹ سولہ دسمبر کو علم کی دہلیز پر مسلے جانیوالے معصوم پھولوں کو جاتا جن کی شہادت نے پوری قوم کو جھنجوڑ کے رکھ دیا۔

یہ کریڈٹ ہر اس شہید کو دیاجاسکتا ہے جن کے خون کی خوشبو امن بن کر بکھر رہی ہے
پیار بن کر بہہ جاؤں
ہر لمحہ تجھے چاہوں
زندگی ہو تم میری
تم کو کیسے سمجھاؤں
منزل ہے میری وطن،میں ہوں نگہبان
مشکل جو آئے تو حاضر کروں اپنی جان۔۔۔
میرے ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
تینوں رب دیاں رکھاں
میرے ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
تینوں رب دیاں رکھاں۔

۔۔!!
گونج لوٹی ہے ٹھکانے
گونج ان کی ترانے۔۔۔
کب آئے گا تو میرے
سونے سپنے سجانے۔۔۔!!
میرے خون سے سجادوں
ساری دھرتی کا آنگن
یہ ہے میرے نذرانے
تیرے دل وچ ماہیا
ساہاں بن کے وساں
تینوں رب دیاں رکھاں
میرے ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
تینوں رب دیاں رکھاں
کوئی مشکل ہو چاہے
سر یہ جھک نہ پائے
میری جیت پہ ہمیشہ
سوہنے رب کے ہوں یہ سائے
چاہے دور ہو کنارے
تیری دعا کے سہارے
مولا پار لگائے۔

۔۔
تیری وردی پہ واروں
میں ساریاں محبتاں
تینوں رب دیاں رکھاں
میرے ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
تینوں رب دیاں رکھاں
کب لوٹ کے آؤں
تیرا پیار میں پاؤں
راہواں تکدیاں اکھاں۔۔
رب دیاں رکھاں۔۔۔!!
میرے ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
تینوں رب دیاں رکھاں
(بشکریہ شاعر)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :