چائے والا مودی ۔۔!

بدھ 26 اگست 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

ایک مرتبہ پھر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث دو ہمسایوں میں بات چیت منسوخ ہوچکی ہے۔یہ دونوں ہمسایوں کے مشیروں کے ملن کی منسوخی کو کشمیر کو بات چیت میں شامل کرنے اور کشمیری قیادت سے پاکستانی قیادت کے ملنے کی ضد کو جواز بنایا گیا ہے۔بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں اس کاغصہ پاکستانی پرچم لہرانے والے نوجوانوں کو شہید کرکے نکالا ہے۔
یہ بات عیاں ہے کہ خطے میں سب سے بڑا تنازعہ کشمیر ہے،ڈوگرا راج کے بعد یہاں بھارتی فوج قابض ہوئی،کچھ علاقہ تو پاکستانی فوج اور مجاہدین نے انیس سو اڑتالیس میں آزاد کروالیا ۔

اقوام متحدہ کی مداخلت کے باعث بقیہ حصہ ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔بھارت نے اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کی قرادادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے یہاں کے باسیوں کو آزادی دینے کی حامی تو بھری لیکن آج تک ان کو آزادی نہیں دی او ر نہ ہی یہاں رائے شماری کرائی ہے۔

(جاری ہے)

بلکہ کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔یہاں آزادی کی تحریک زور و شور سے جاری ہے۔

کئی جہادی تنظمیں جو کشمیری نو جوانوں پر ہی مشتمل ہیں برسر پیکار ہیں۔حریت کانفرنس کے نام سے یہاں کی سیاسی جماعتیں پرامن جدوجہد بھی کررہی ہیں۔اسی مسئلہ پر دونوں ہمسایوں میں چار جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔کئی مرتبہ بارڈر پر جنگ کیلئے فوجیں آمنے سامنے بھی آئیں،اسی مسئلہ کے باعث دونوں ہمسایوں نے ایٹم بم بھی بنا ڈالے،تیسرے فریق کو بیچ میں نہ لانے کی بات کی جاتی ہے،ماضی میں امریکہ اور روس بھی تو اس مسئلہ کے حل کیلئے میدان میں کودے تھے،اس مسئلہ کی وجہ سے ہی تو بھارت پاکستان میں پراکسی وار لڑ رہا ہے ۔


سوال یہاں یہ ابھرتا ہے کہ بھارت اگر اس مسئلے کو کئی برس پہلے اقوام متحدہ میں جاکر متنازعہ تسلیم کرچکا ہے تو اب اس سے فرار کیوں؟ کشمیری قیادت سے پاکستانی حکام کی ملاقاتوں پر اعتراض کیوں؟ حالانکہ یہ پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے۔
بھارتی حکام کہتے ہیں کہ بات صرف اور صرف دہشتگردی پر ہوگی۔مان لیتے ہیں کرلیں بات ۔۔لیکن جو بھارتی فوج کشمیر میں کر رہی ہے وہ کیا ہے؟ کیا جبری قانون کے تحت ریاست کے نام پر کشمیریوں کا قتل عام دہشتگردی نہیں؟ کیا وہاں پر تشدد واقعات نہیں ہوتے؟ حق کیلئے آواز بلند کرنیوالوں کی زباں بندی کیا ہے؟ شہری اور دیہاتی علاقوں سے اجتماعی قبروں کی برآمدگی کیا ریاستی دہشگردی کا شاخسانہ نہیں؟
دنیا کا آپ کے بارے میں خیال ہے کہ آپ سب سے بڑی جمہوریت ہو۔

جمہوریت کے نام پر جمہور کی آواز کو تو نہ دبایا جائے،سچ کا گلہ تو نہ گھونٹا جائے۔معاشی لحاظ سے پاکستان پیچھے ضرور ہے لیکن اتنا ہی کمزور نہیں کہ نوالہ سمجھ کر چبا لیا جائے۔پاکستان نے تو دنیا کو پرامن بنانے کیلئے ساٹھ ہزار سے زائد قربانیاں دی ہیں،کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے سے یہ انگ بھارت کا تھوڑا ہی ہوجائے گا،جنگ جنگ کرنے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت کا انگ انگ ہی نہ ٹوٹ جائے،کالے کوے کو سفید کہنے سے سفید نہیں ہوجاتا!
جہاں تک امن اور بہتری کی امیدمودی سرکار سے رکھنے کی بات ہے تو یہ احمقانہ ہے،ذرا ماضی میں جائیں تو سب آشکار ہوجائے گا کہ یہ منطق صحیح ہے یا غلط۔

تفصیل میں جائیں گے تو بات دور تک نکل جائے گی،جب نریندرا مودی نے بھارتی وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تو تب دنیا نے کہ دیا تھا کہ دو ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں بہتری کے بجائے ناسور ثابت ہوگا،ان اندازوں اور تجزیوں کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
امید کی جارہی تھی کہ بچپن میں ریل گاڑیوں اور پلیٹ فارموں پر چائے بیچنے والا مودی بھارت کی تقدیر بدل دے گا،وہ مودی نہ تو بھارتی عوام کی تقدیر بدلنے میں کامیاب ہورہا ہے اور نہ ہی اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے میں ۔

بلکہ وہ اپنے انتہا پسند نظریے اور خاص مائنڈ سیٹ کے باعث اپنے ملک اور خطے کو انتہا پسندی اور جنگی کیفیت میں ڈالتے جارہا ہے۔بھارت میں جہاں نریندرا مودی کی بی جے پی کا مسلمانوں کیلیے مزاج انتہا پسندانہ ہے تو پاکستانیوں کیلئے کیسے نرم ہوسکتا ہے؟ اگر نریندر امودی کو حکومت چلانی ہے تومزاج بدلنا ہوگا،اپنے ملک اور ہمسائے میں بسنے والے لوگوں کو انسان سمجھنا ہوگا۔نہیں تو بھارت میں ایک اور پاکستان بن جائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :