پاک چین دوستی،ہمالیہ سے ہنزہ تک!

جمعہ 18 ستمبر 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

وزیراعظم محمد نوازشریف نے چینی کمپنی کے اشتراک سے گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں عطا آباد جھیل پر شاہراہ قراقرم کی بحالی کیلئے تعمیر کی گئی 5 سرنگوں سمیت قراقرم ہائی وے کی تعمیر نو کے منصوبے کا افتتاح کر دیا ہے۔2010ء میں تودے گرنے سے جہاں شاہراہ ریشم بلاک ہوئی وہیں ایک جھیل بھی وجود میں آ گئی۔ اب دوبارہ سے ”پاکستان چین دوستی“ ٹنلز کے نام سے راستے بحال کردیئے گئے ہیں۔

عطا آباد جھیل کی لمبائی 25 کلو میٹر اور گہرائی 200 میٹر ہے۔ نئی شاہراہ پر 7کلو میٹر طویل سرنگیں بنائی گئی ہیں جن کے ذریعے کئی شہر اور علاقے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں آ گئے ہیں۔ چین کے ساتھ شاہراہ ریشم بلاک ہونے سے پاک چین تجارت میں 75 فی صد کمی آئی تھی۔ اس دوران تجارت جھیل میں کشتیوں کے ذریعے ہوتی رہی۔

(جاری ہے)

اب سڑک کے ذریعے پھر سے تجارت شروع ہوگئی ہے۔

ضرورت پڑنے پر جھیل متبادل کے طور پر استعمال ہو سکے گی۔ یقینا ان راستوں سے چین کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوگااور علاقہ خوبصورت سرنگوں اور نئی وجود میں آنیوالی جھیل کی وجہ سے سیاحوں کیلئے مزید دلچسپی کا باعث بنے گا۔چار جنوری2014 کو ہنزہ تحصیل کے گاوٴں عطا آباد سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں ’مٹی کا تودہ’ گرنے کے باعث دریائے ہنزہ میں پانی کا بہاوٴ رک گیا جس کے نتیجے میں ایک جھیل معرضِ وجود میں آگئی۔

تودے نما پہاڑ دریا میں گرنے اور جھیل بننے کا یہ واقعہ یوں پیش آیا کہ سنہ دو ہزار دو میں استور میں زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں عطا آباد کی پہاڑی میں شگاف پڑ گئے۔عطاآباد تحصیل ہنزہ کا آخری گاوٴں ہے جس کے دو حصے ہیں، ایک ’عطا آباد بالا ‘اور دوسرا ’عطا آباد پائن‘ ہے جسے سرکٹ بھی کہتے ہیں۔پہاڑ پہلے تو دریا میں گرا جہاں اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور عطا آباد پائن پر جا گرا جس کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔

عطا آباد پائن وہی گاوٴں ہے جس کو حکومت نے” محفوظ“ قرار دیا تھا، تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہوچکے ہیں۔سنہ دو ہزار دو کے بعد سے حکومت پاکستان اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’فوکس پاکستان انٹرنیشنل‘ نے کئی بار اس جگہ کا معائینہ کیا۔سنہ دو ہزار نو کے وسط میں عطا آباد بالا کے رہائشیوں نے حکومت پاکستان اور فوکس پاکستان سے دوبارہ کہا کہ پہاڑ سرک رہا ہے اور شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔

”سنہ دو ہزار نو میں پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔ زمین ناہموار ہو گئی تھی، کھیت ایک جگہ سے اوپر ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا۔ ’کئی جگہوں پر تو ایسے تھا جیسے سیڑھیاں بنی ہوں،یہ مصنوعی جھیل عطا آباد بالا کے قریب بنی تھی جوقدرے اونچائی پر ہے، جبکہ عطا آباد پائن نیچے کی جانب ہے۔

عطا آباد میں پہاڑ دریا میں جا گرنے سے بند ہونے والی مقام کوصاف کیا جارہا ہے۔عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے اس گاوٴں کے رہائشیوں کو دسمبر دو ہزار نو کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا تاہم حکومت نے عطا آباد پائن کو محفوظ قرار دے دیا۔

عطا آباد بالا کے رہائشیوں کے مطابق چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں۔چار جنوری کو دوہزار دس کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے درے نیچا تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں انیس ہلاکتیں ہوئیں۔

پہاڑ گرنے اور ملبے کا زمین پرگر کر اچھلنے کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ ’سپلیش‘ کا نام دیتے ہیں۔سلام آباد سے ہنزہ کا سفر چھبیس گھنٹوں پر مشتمل ہے۔جھیل کی لمبائی تقریباً تیس کلومیٹر طویل ہو چکی ہے۔یہ جھیل جس علاقے میں بنی ہے وہ تحصیل گوجال ہے۔واقعہ کے بعد اس تحصیل کے مزید دو گاوٴں آئینہ آباد اور ششکٹ مکمل طور پر زیرِ آب آ گئے۔

تیشے گاوٴں گلمٹ جو گوجال تحصیل کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے قدرتی جھیل کا نشانہ ہے۔اس سے قبل دسمبر سنہ اٹھارہ سو اٹھاون میں بھی تودہ گرنے سے جھیل بن گئی تھی۔ یہ جھیل آٹھ ماہ تک بنی رہی اور اس میں پانی جمع ہوتا رہا اور جولائی سنہ 1859 میں قدرتی بند ٹوٹا۔ اس جھیل کے پانی کا اتنا زور تھا کہ اس نے دریائے کابل کے پانی کو پانچ کلومیٹر واپس دھکیل دیا۔

جیھل کے بند پر سپل وے یا پانی کے گزرنے کا راستہ بنایا جا رہا ہے۔قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ راہداری منصوبہ ہو یا خطے میں امن کے قیام کے لئے پاک چین جنگی حکمت عملی دونوں ہمقدم ہیں” اب دالتے ہیں ایک خبر پر نظر ، خبر کے مطابق چین کے نیشنل ایرو ٹیکنالوجی امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کارپوریشن کے صدر یانگ ینگ نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے اشتراک سے تیار ہونیوالے 300جے ایف 17تھنڈر طیارے آئندہ ایک عشرے میں بکنے کا امکان ہے اور اس کیلئے دونوں ممالک پرعزم ہیں۔

جبکہ پاک فضائیہ کے جے ایف 17فائٹرپراجیکٹ کے چیف ڈائریکٹر مارشل ارشد ملک کے مطابق جے ایف 17تھنڈر کی قیمت مناسب ہے اور اس کی کارکردگی اسی لیول کے دیگر جہازوں کی نسبت بے مثال ہے ، اب تک پاک فضائیہ تین جے ایف 17فائٹرسکواڈ تشکیل دے چکی ہے اور ارادہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں 250جے ایف 17تیار کیے جائیں۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور چین نے لڑاکا طیاروں کو تیار کرنے کا معاہدہ 1998ء میں کیا اور 2007ء میں جے ایف 17تھنڈر کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ چکی تھی۔یہ بھی واضح رہے کہ پیرس ایئرشو میں شرکت کیلئے تین جے ایف 17تھنڈر گئے تھے جنہوں نے وہاں دھوم مچادی اور اطلاعات ہیں کہ 12ممالک نے خریداری میں دلچسپی کا اظہار کردیا اورمعاہدوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :