تھیا کریسی یا سیکولر ریاست

ہفتہ 31 دسمبر 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

کیا ایک مسلما ن کے لئے مذہب صرف ذاتی مسئلہ ہے اورریا ست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ایک اسلامی سیکولر ریاست ممکن ہے اور قرآن حکیم اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ مذہب اور امور مملکت کاباہمی تعلق کیا ہوناچاہیے۔ یہ بہت اہم سوالات ہیں اور ان پر اکثر بحث ہوتی ہے ۔کچھ احباب مذہبی ریاست یا تھیاکریسی کے رد عمل میں سیکولر ریاست کی وکالت کرتے ہیں۔

اصل معاملہ جاننے سے قبل سیکولرازم اور تھیا کریسی یا مذہبی ریاست کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ایک اسلامی حکومت کس طرح سیکولر اور تھیا کریسی سے مختلف ہوتی ہے، بہت اہم سوال ہے۔ مغرب میں حکومتی امور میں مذہبی رہنماؤں کے تسلط کے خلاف اٹلی کے قانون دان البیریکو گینٹلی نے ریاست اور گرجا گھر وں کی علیحدگی کا تصور پیش کیا۔

(جاری ہے)

انیسویں صد ی میں برطانوی مصنف جارج یعقوب نے سیکولرازم کی اصطلاح وضع کرتے ہوئے مذہب کو ریاستی امور سے الگ رکھنے کی وکالت کی۔

یورپ میں بادشاہت اور کلیسا کے گٹھ جوڑ اور مذہبی پیشوائیت کے جبر کا یہ قدرتی رد عمل تھا ۔ مذہبی پیشوائیت کے انسانی استحصال کی وجہ سے یورپ میں حقوق انسانی کے علمبرداروں اور بہت سے سائنسدانوں کو جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ پروٹیسٹینٹ تحریک بھی اسی کا رد عمل تھی۔ تھیاکریسی اور مذہبی تسلط سے انسانی ترقی کے رک جانے کا مشاہدہ اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ یورپ میں کیتھولک ممالک آج بھی پروٹیسٹینٹ ممالک سے ترقی میں پیچھے ہیں۔


اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے کیونکہ اس میں نہ تومذہبی پیشوائیت ہے اور نہ ہی تھیاکریسی کی گنجائش۔ قائد اعظم نے اس کی بہت خوبصورت وضاحت یوں کی کہ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی نہ کسی اور شخص یا ادارہ کی ۔ اسلامی حکومت میں اطاعت اور وفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا واحد ذریعہ قرآنِ مجید کے احکام اور اصول ہیں۔

قرآن کے احکام ہی سیاست یا معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔ گویا وحی خداندی کو امور مملکت سے الگ نہیں کیا جاسکتا جبکہ سیکولر ازم میں وحی کا کوئی عمل د خل نہیں ہوتا ۔ ایک مسلمان کی زندگی وحی کے تابع حدود اللہ کے اندر ہوتی ہے جبکہ سیکولر ازم میں کسی حدود کوئی تصور نہیں ہوتا اس لئے ایک مسلمان سیکو لر ہو ہی نہیں سکتا۔

جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر یہ کہا کہ جو لوگ کتابِ خداوندی کے مطابق حکومت قائم نہیں کرتے انہی کو کافر کہاجاتا ہے(5/44) تو پھر مسلمانوں کی ریاست کیسے سیکولر ہوسکتی ہے۔بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت میں مملکت کے تمام امور قرآن حکیم کی روشنی اور اُس کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر سرانجام پاتے ہیں اور کسی کو بھی ان حدود سے تجاوز کا اختیار نہیں ہوتا ۔

سیکولر نظام حکومت یا مغربی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کے اکیاون فی صد اراکین جو چاہے قانون بناسکتے ہیں اُن پر کوئی قدغن نہیں ہوتی وہ چاہیں تو مرد کو مرد کے ساتھ شادی کی قانونی اجازت دے دیں جیسا کہ کئی ممالک کی پارلیمان نے جمہوری طریق کے تحت یہ قانون وضع کر رکھا ہے مگر ایک اسلامی مملکت میں اکیاون فی صد تو کیا سوفیصد بھی اس طرح کا کوئی قانون نہیں بناسکتے جوقرآن کی واضح تعلیمات کے منافی ہو۔

سیکولرازم اوراسلام میں یہ فرق ہے اسلامی جمہوریت قانون سازی میں شتر بے مہار نہیں ہے وہاں حقِ حکومت صرف خدا کی ذات کو حاصل ہے جیسا کہ سورہٴ یوسف میں ہے اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلْہِ اسلامی حکومت میں عومی نمائندے انہیں حدود کے اندر کتاب الله کی روشنی میں قانون سازی کرتے ہیں ۔اللہ پر ایمان محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی شئے ہے اور روزمرہ اعمال، انفرادی اور اجتماعی امور میں خدا کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے ۔

قرآن واضح حکم دیتا ہے کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرو ((6/114۔حاکمیت اور فیصلے قرآن کے مطابق ہوں گے ((5/49۔سورہٴ آلِ عمران میں واضح کر دیا کہ کسی انسان کو اس کا حق حاصل نہیں کہ خدا اُسے ضابطہ قوانین ،حکومت اور نبوت عطا کرے اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کے احکام کی جگہ میرے احکام کی اطاعت کرو۔ قرآن حکیم ہی ایک اسلامی مملکت کا منبع ِہدایت ہے اور سپریم قانون ہوتا ہے۔

۔اسلامی مملکت کی ایک اور امتیازی خوبی یہ ہوتی ہے اس میں تمام افرادِ امت شریک حکومت ہوتے ہیں اور کاروبارحکومت باہمی مشورہ سے طے ہوتے ہیں مملکت کے فیصلے قوانینِ شریعت کہلائیں گے اورپبلک لاء او ر پرائیویٹ لاء میں کوئی تخصیص نہیں ہوتی اسلامی مملکت عوام کے منتخب تمائندوں سے دستور سازی اور حکومت کا نظام چلاتی ہے ۔اس میں مذہبی ،پیشوائیت یا تھیاکریسی کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔

کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے پر حکم چلائے یا قرآن وسنت کی من مانی تعبیر کر کے ریاست کے اندر ریاست قائم کرے۔جو مسلمان غیر مسلم ممالک میں اقلیت کی حیثیت سے رہ رہے ہیں وہ وہاں کے قوانین کی پابند کرتے ہوئے وہاں رہیں گے اور ہجرت حبشہ ان کے لئے بہترین مثال ہے۔ایک اسلامی مملکت کے تین عناصر ترکیبی ہوتے ہیں جیسا کہ سورة الحدید کی آیت 25میں بتایا ہے وہ تین عناصر ،الله کی کتاب ،عدل اور قوتِ نافذہ ہیں اسلامی مملکت کتاب الله کی روشنی میں میزان عدل کھڑا کرتی ہے اور اس نظام کی مزاحم قوتوں کو اپنی طاقت سے ناکام بناتی ہے اورقانون کی حکمرانی کو یقینی بناتی ہے ۔

ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو انسان اور مملکت کا شہری ہونے کے ناطے تمام حقوقِ شہریت حاصل ہوں گے لا اکراہ فی الدین کی روشنی میں وہ بغیر کسی جبر کے اپنی تمام مذہبی سرگرمیاں آزادانہ سرانجام دے دیں اور مملکت کا فرض ہوگا کہ وہ اُن کی اور اُن کی عبادت گاہوں کی مکمل حفاظت کرے قرآنِ حکیم کی یہ تعلیم کہ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ (17/70)تمام انسا ن ہونے کے ناطے واجب التکریم ہوں گے قرآن کامنتہی تمام انسانوں کے اختلافات مٹا کر انہیں ایک عالمگیر برادری بنانا ہے تا کہ اُن میں بھائی چارہ اور اچھے تعلقات قائم ہوں ۔

اسلام محض مذہب نہیں بلکہ ایک نظام زندگی ہے جس میں ریاستی امور بھی شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ اسلامی ریاست نہ تو مذہبی پیشوائیت کی تھیاکریسی ہے نہ ہی سیکولر ریاست۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :