بھارت سے دوستی اور امن کی خواہش

جمعہ 18 ستمبر 2015

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

امن اور دوستی کا راستہ ہی برصغیر کے عوام کے لیے خوشحالی اور ترقی کا ضامن بن سکتا ہے۔ اس خواہش کا اظہار سرحد کی دونوں جانب سے ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے کسے انکار ہے کہ مسائل جنگوں سے حل نہیں ہوتے اور امن و سلامتی کا راستہ ہی سب کے فائدہ مند ہے لیکن امن اور دوستی کس قیمت پر۔ کیا ظلم ، زیادتی اور دوسروں کے خلاف جارحانہ کاروائیوں کے تسلسل میں امن اور دوستی ممکن ہے۔

ہمسایہ ممالک کی آزادی و خودمختاری اور قومی وقار کو تسلیم کیے بغیر کیا امن ا ور دوستی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔ اکھنڈ بھارت کے نظریہ کی موجودگی کے باعث کیا آپس میں دوستی ممکن ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو بھارت سے امن ، دوستی اور تجارت کی خواہش رکھنے والوں کے سامنے رکھنے کی جسارت کروں گا۔

(جاری ہے)

غیر جانبدارانہ اور عدل و انصاف کے ترازو میں ماضی کی تاریخ اور موجودہ طرز عمل کا جائیزہ لیتے ہیں پھر اس کے بعد فیصلہ خود کرلیں۔

پہلے ایک اصول طے کریں اور پھر اُس کی روشنی میں امن اور دوستی کی جانب بڑھیں اور اس بات کا فیصلہ کریں کہ ۱۹۴۷ء سے اب تک کس ملک نے بر صغیر میں امن کی آشا کومجروح کیا ، ناجائیز اور جبری قبضہ کرکے اپنا رقبہ بڑھایا ، دوسروں کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کیا ،کس نے جمہوری روایات کو پامال کرکے عوام کے حق خود آرادی سے محروم کیا ، کس نے بین الاقوامی قانون اور اقوام عالم سے اپنے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کئے،کس نے بین الاقوامی اصولوں کو روندتے ہوئے دوسروں کی علیحدگی کی تحریکوں کی پشت پناہی کرکے ملک توڑے ہیں۔

یہ وہ سوالات ہیں جو انصاف کے ترازو میں تول کر ہی کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہیے۔
پندرہ اگست ۱۹۴۷ء کو جو بھارت آزاد ہوا تھا وہی حقیقی اور قانونی بھارت ہے اور اس کے بعد بھارت نے جو بھی اپنے رقبے میں اضافہ ہے وہ غیرقانونی اور ناجائیز ہے۔ آزادی کے بعد بھارت نے پانچ ریاستوں پر جبری قبضہ کرے اُن کی آزادی اور خودمختاری کو سلب کرتے ہوئے وہاں کے عوام کوغلام بنا رکھا ہے۔

بین الاقوامی اصول و ضوابط پامال کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو جدا کرنے میں جو گھناؤنا کردار ااُس کا اعتراف وہاں کی قیات نے خود کیا ہے۔ بھارت نے اپنی آزادی کے فوری بعد ۲۶ اکتوبر کو ریاست جموں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ اُس نے مہاراجہ کی جانب سے نام نہاد الحاق کو اس کی بنیاد بنایا لیکن آج تک بھارت الحاق کی وہ دستاویزات نہیں دیکھا سکا اور نہ اقوام عالم سے اور نہ ہی کشمیری عوام کو آزادانہ رائے شماری کا وعدہ بھی پورا کیا۔

بھارت نے دوسرا غاصبانہ قبضہ ۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو ریاست جونا گڑھ اور مناور پر قبضہ کرکے کیا حالانکہ اس ریاست نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی درخواست کی جسے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے قبول کیا اور طرح یہ ریاست قانون آزادی ہند کے تحت پاکستان کا حصہ بن گئی ۔سروے آف پاکستان کے سرکاری نقشوں میں جونا گڑھ اور مناور کو پاکستان کا حصہ دیکھایا جاتا رہا۔

بھارت نے تیسرا جبری اور غاصبانہ قبضہ قبضہ ر یاست حیدرآباد دکن پر کیا۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہندوستان کے قانون کے تحت بر صغیر کی دیسی ریاستوں کو حق حاصل تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں یا پھر اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کردیں۔ اسی اصول کے تحت حیدر آباد ریاست کے حکمران نظام حیدر آباد نے خود مختاری کا فیصلہ کیا اور یوں انگریزوں کے جانے کے بعد برصغیر میں پاکستان، بھارت اور حیدر آباد تین ملک بن گئے۔

پاکستان نے حیدر آباد کی خود مختاری کو قبول کیا اور مشتاق احمد خان اُس کے سفیر کی حیثیت سے پاکستان میں تعینات ہوئے۔ بھارت نے اپنی غاصبانہ اور اکھنڈ بھارت کی پالیسی کے تحت قائد اعظم کی وفات کے فوراََ بعد حیدر آباد پر فوج کشی کردی ۱۳ تا ۱۸ ستمبر ۱۹۴۸ء حیدرآناد میں دو لاکھ افراد کے بعد سقوط حیدر آباد ہوگیا۔
۱ ۱۹۶ء میں دادرا، نگر حویلی اور گوا پر قبضہ اس سلسلہ کی چوتھی مثال ہے۔

سکم کی ریاست اس سلسلہ کی پانچویں مثال بنی جسے اکھنڈ بھارت اپریل ۱۹۷۵ میں ہڑپ کر گیا۔ مشرقی پاکستان میں مداخلت کے بعد سلسلہ جاری ہے اور اب بلوچستان اور کراچی میں سابقہ پالیسی تسلسل ہے۔ کئی ہمارے دانشور مسئلہ کشمیر کو پاک بھارت تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے ایک طرف رکھ ہمیں دوستی اور باہمی تجارت کرنی چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اگر نہ بھی ہوتا تو پھر بھی اکھنڈ بھارت پالیسی کے ہوتے ہوئے خطہ میں امن ممکن نہیں تھا۔ بھارت بھوٹان اور نیپال کی طرح پاکستان کو بھی ایک مطیع ریاست کی طرح رکھنا چاہتا ہے۔
بھارت نے جس طرح سے پاکستان کو توڑا اور اب بھی اسے غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کے برعکس پاکستان کا رویہ مختلف ہے۔ یہ درست ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کی پاکستان حمایت کرتا ہے اور آزادی کے لیے ۱۹۶۵ ء میں فوجی کوشش بھی کی لیکن اس کے ساتھ ہی ۱۹۵۸ء میں آزادکشمیر اور مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کی جانب سے سیز فائر لائن کو توڑنے اور واپس جموں کشمیر جانے کی تحریک کشمیر لبریش موومنٹ کو پاکستان نے روک دیا جس پر بھارت نے اُس کا شکریہ ادا کیا۔

پھر پاکستان نے تو بھارت کے سلامتی اور تحفظ کے لیے صدر ایوب خان کے دور میں مشترکہ دفاع کی پیش کش بھی کی۔ پاکستان نے تو بھارت کے جہازوں گنگا اور بوئنگ ۷۰۷ کو غواہ کرنے والے حریت پسندوں ہاشم قریشی ، اشرف قریشی اور عبد الحمید دیوانی کے سات ساتھیوں اور دوسرے بہت سے کشمیریوں پر وہ ظلم و تشدد کیا کہ آج بھی شاہی قلعہ، دلائی کیمپ، قلعہ چلاس اور دوسرے عقوبت خانے اُس کے گواہ ہیں۔

۱۹۹۲ء میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی عظیم عوامی مارچ کو پاکستان نے قوت کے زور پر روکا اورآٹھ افرادشہید ہوگئے۔اسی طرح بھارت کو پاکستان کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اس نے خالصتان کی تحریک کوختم کرنے میں اُس کی مدد کی۔ اس برعکس بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے بھگوڑوں کی نہ صرف مدد کی بلکہ انہیں تربیت دے کو اسلحہ سمیت واپس بھیجا تاکہ وہ اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔


امن اور دوستی کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی آزادی ،خود مختاری، قومی وقار اور سلامتی کا احترام کیا جائے۔ باہمی تنازعات عدل و انصاف کے اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے حل کئے جائیں۔ عالمی برادی سے کیئے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور توسیع پسندانہ پایسی کو ترک کرکے دوسروں کو بھی آزادی اور خود مختاری کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے۔جب تک ایسی پالیسی نہ اپنائی گئی امن اور دوستی کی خواہش محض خواب ہی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :