نجم سیٹھی کا مرز اغنچہ

منگل 18 فروری 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

راقم طبعیت کی خرابی اور کچھ ( اپنی شاید آ خری ) کتاب ” سوچ کا سفر،وزارت عظمیٰ تک “ کی فکرِ تسوید میں الجھ کر، کالم لکھنے کے نام پر، دل کے پھپولے پھوڑنے سے غافل رہا ہے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے، آزادی ِ رائے صرف سچ لکھنے اور بولنے کی حد تک ہونی چاہیے ،لیکن ہمار ے یہاں آزادی رائے یا آزادی صحافت کے نام پر جھوٹ اور سچ میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔

ایک عام قاری کو کچھ سوجھائی نہیں دیتا کہ وہ حقیقت حال تک پہنچنے کے لئے کس کی انگلی تھامے، بڑے بڑے لیڈرانِ کرام کے مرزا غنچہ ، اپنے لیڈران ِ کرام کو خوش کرنے کے لئے شمس و قمر جیسی سچائیوں حقائق کے مُنہ پر طمانچے مارتے تو نظر آتے ہیں اور سچ تو یہ کہ ان کی اوٹ پٹانگ باتوں کو ہم کوئی اہمیت بھی نہیں دیتے کہ اُن بے چاروں نے تو اپنی پارٹی لائین میں رہ کر ہی بات کرنی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن جب یہی کام کچھ صحافی اور وہ بھی کوئی عام صحافی نہیں، بڑے بڑے نامور صحافی کرتے نظر آتے ہیں ، تو بڑی افسوس ناک الجھن ہوتی ہے۔
آپس کی بات والے نجم سیٹھی کی کہی ۳۵ پنکچر لگانے کی خبر کو چند بڑے صحافیوں نے بریک کیا ہے ۔ چاہیے تو یہ کہ نجم سیٹھی خود کشی کرنے کی دھمکیاں دینے کے بجائے عدالت میں جائیں، اس لئے کہ آزادی فقط سچ بولنے کی ہونی چاہیے، جھوٹی افوا ئیں اڑانے کی نہیں، جھوٹ بولنے اور جھوٹی افواہیں اڑانوں والوں کے خلاف قانونی کاروائی ،خود کشی کی دھمکی کے مقابلے میں صحت مند کاروائی ہے،ویسے آپ کی دھمکی کا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا،شاید لوگوں نے آپ کی دھمکی کو صحافت کے نصب العین پر آپ کا احسان سمجھا ہے۔


اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں بے روزگاری بھی ہے اور مہنگائی بھی قیامت کی ہے۔روزگار والے بھی سائیڈ انکم کے لئے کوئی پارٹ ٹائم جاب چاہتے ہیں اور دنیائے صحافت میں نجم سیٹھی کی چڑیا دور دور کی کوڑیا لانے میں بڑی شہرت رکھتی ہے۔ سوال ہے ،اُس ظالم چڑیا نے نجم سیٹھی کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ نجم سیٹھی صاحب ! اگر آپ نے چند اضافی روپئے کمانے کے لئے کوئی پارٹ ٹائم جاب ہی کرنی ہے، ضرور کریں ،لیکن یہ تو دیکھ لیں کہ آپ کس کی جاب کر رہے ہیں ؟ کہ شرفا میں لوگ اپنی کمپنی ہی سے جانے پہچانے جا تے ہیں ۔

چلئے صاحب ! ’وزارت اعلیٰ ‘ کے اختیارات ، خصوصاً ہمارے ملک میں بے لگام اختیارات کا چارم ہی ایسا کہ کوئی بھی اس کے سنہری جال میں پھنس سکتا ہے۔آپ کی چڑیا نے آپ کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننے سے کیوں نہیں روکا ؟ آپ کے پاس کرکٹ کا کیا تجربہ ہے؟ اس کے علاہ ،دنیائے کرکٹ پر انڈیا اور آسٹریلیا اپنی جو ا جارہ داری قائم کر رہے ہیں،ہندوستان کی خوشنودی کی آبیاری کرنے کی غرض سے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے آپ اس جارحیت کے خلاف کچھ نہیں کر سکیں گے اور اگر کچھ کریں گے تو نہ صرف میاں نواز شریف،جیو ٹی۔

وی کے مالکان بھی آپ سے ناراض ہو جائیں۔یہ سب پاکستان میں امریکہ اور انڈیا کے سفارت کار ہیں۔آپ کی چڑیا نے آپ سے یہ کیوں نہیں کہا، ا خدا ر ،ا صحافت کے شعبے میں آپ نے جو عزت و شہرت حاصل کر لی ہے،اُسی پر گزر بسر کر یں، باجود اس کے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے بقول اُس پر بھی کئی داغ دھبے ہیں، اِن ہی دنوں میں ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب سے ایک پروگرام میں جب یہ کہا گیا کہ نجم سیٹھی آپ کو ۳۵ پنکچر والی بات کرنے کے حوالے ،سے آپ پر مقدمہ کرنے جا رہے ہیں تو، انہوں نے وہی ہنسی ، جو کسی دیوانے کی بڑ پر ہنسی جاتی ہے، کمال بے پرواہی سے ہنستے ہوئے کہا۔

”وہ یہ شوق بھی پورا کر لیں،عدالت میں گئے توکچھ مزید اور اس سے بھی زیادہ سیریس باتیں سامنے آئیں گی ۔ جن کے میرے پاس ثبوت بھی ہیں۔“
اب یہ باتیں وہ لوگ تو نہیں جانتے،جو آپ کی چڑیا سے بہت متاثر ہیں۔ ایک عام آدمی تو یہی جانتا ہے کہ نجم سیٹھی ’آپس کی بات ‘ پروگرام میں بڑی دُور دُور کی کوڑیا لاکر سننے والوں کے من موہ لیتے ہیں۔

گفتار کی سچائی کویا صاحبِ گفتار کے کردار کو کون پرکھتا ہے؟بھلاعام لوگ یہ کب جانتے کہ نجم سیٹھی کا مرزا غنچہ ،نجم سیٹھی کے لکھائے ہوئے سوال ایک بچکانہ، خیر بچے تو بہت معصوم ہوتے ہیں،ایک مکارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کرتا ہے اور پھر نجم سیٹھی انتہائی دانشورانہ انداز میں اپنے ہی بتائے ہوئے سوالوں کے جواب دیتے جاتے ہیں اور میاں صاحب کے سیاسی حریفوں کی سونے جیسی کھری سیاست کے مُنہ پر بڑی ڈھٹائی سے طمانچے مار نے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔

مانا کہ میاں برادران آپ کے مہرابان ہیں اور انہوں نے کرکٹ بورڈ کی چیئر مینی عدلیہ کی مخالفت مول لے کر آپ کو دان کر دی ہے۔لیکن جناب والا! ’آپس کی بات‘ میں یہ بھی ذہن نشیں رکھا کریں کہ آپ کی اور آپ کے مرز ا غنچہ کے درمیان میں’ آپس کی بات‘فقط آپ کی آپس کی بات نہیں ہوتی اور یہ کہ اسے صرف میاں بردران ہی نہیں ، کچھ دوسرے لوگ بھی سن رہے ہوتے ہیں۔


یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اس لئے کہ بے چارے مرز غنچہ کا ’مقام ادب میرے دل میں آلتی پالتی مار کے بیٹھا مجھے شرمسار کر رہا ہے کہ مجھے کس سے ملا رہئے ہو ؟ اور یہ ہے بھی سچ کہ مرز ا غنچہ تو بڑے اور بہت ہی بڑے شاعر کا مصاحب تھا اور مرزا سودا کی شاعرانہ فضیلت کا یہ عالم تھا کہ ایک دن لکھنوٴمیں میر# اور مرزاسودا# کے کلام پر دو شخصوں نے تکرار میں طول کھینچا۔

دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے،اُنہیں کے پاس گئے اور عرض کی کہ آپ بتائیں ؟اُنہوں نے کہا کہ دونوں صاحب کمال ہیں، مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام ’آہ ‘ اور مرزا صاحب کا کلام ’ واہ ‘ ہے۔مثال میں میر صاحب کا شعر پڑھا۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
پھر مراز سودا کا شعر پڑھا۔
سودا کی جو بالیں پہ ہوا شورِ قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
بھلا ایسے بڑے آدمی کے مصاحب مراز غنچہ کو کبھی کسی نے تمسخرانہ نظروں سے کیوں دیکھا ہو گا ؟ یہ تو ہوئی اُن کی شاعرا نہ عظمت کی بات۔

سچ بولنے کی جرا ء تِ کا بھی یہ عالم تھا کہ شاہ عالم بادشاہ نے غزل کی فرمائش کی تو مرزا کی معذرت کے جواب میں شاہ عالم بادشاہ نے کہا۔بھئی مرزا ! ہم تو پا خانے میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔“ جوابا ہاتھ باندھ کے عرض کی۔
” حضور ویسی ہی بو بھی آتی ہے“ بھلا دو دو ٹکے پر اپنی صحافیانہ مشقت بیچنے والے لوگ ایسی سچائی کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں۔

؟
میاں نواز شریف نے اپنی الیکشن مہم کے دوران ایک بار نہیں درجنوں بار قوم کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ وہ بھیک مانگنے کا کشکول توڑ دیں گے۔ کیا نجم سیٹھی کا مرزا غنچہ کبھی اُن سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ کشکول توڑنے کے حوالے سے میاں صاحب کے وعدوں کا کیا بنا ہے ؟اِس وقت جب کہ ملک کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کا ایک ہی علاج ہے ۔

مذاکرات ،لیکن مذاکرات میں ڈرون حملے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔قرآن و احادیث سے بھٹکے ہوئے طالبان شریعت کے داعی بنے بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا جواز یہ دیتے ہیں کہ ہم امریکہ کے اتحادی ہیں اور پاکستان میں امن کا ایک ہی راستہ ہے ،مذاکر ات ۔جیسا کہ واشنگ ٹن یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے ایک پروفیسر نے بھی کہا ہے کہ دہشت گردی سے بچ نکلنے کے صرف دو ہی راستے ہیں۔

(۱) جنگ کی صورت میں شکست (۲) یا مذاکرات ،کیا کوئی صحافی میاں صاحب سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ وہ اِس صورت حال سے بچ نکلنے کے لئے یو۔این۔ او میں ڈرون حملوں کے خلاف اپنے وفود کیوں نہیں بھیجتے ؟ یو۔این۔او میں شور کیوں نہیں مچاتے کہ ڈران حملے بند کئے جائیں۔آ خر اس ملک دشمنی کی وجہ کیا ہے ؟ اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی امریکی جنگ سے ہم الگ کیوں نہیں ہو جاتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :