اِک نیا پاکستان

جمعرات 9 اکتوبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

سب سے پہلے اپنے پچھلے کالم ” روشنی جہاں بھی ہو روشی کا ساتھ دوٴ “ میں ایک غلطی کے لئے معذرت ، عمران خان کے جلسے میں خواتین کی سرخی پاوٴڈر پر طنزیہ جملہ بازی شرجیل میمن نے نہیں ، خادم اعلیٰ پنجاب شہناز شریف نے کی تھی ،جس کے لئے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔لیکن کس کے لئے لکھا جائے ؟ شیروں کا قبیلہ ہے ، اُن کا انسانی اخلا قیات ِ سے کیا تعلق ؟
” اک نیا پاکستان “ کو ایک ایسا کھوکھلا نعرہ بنا دیا گیا ہے کہ اب اگر کوئی خلوص ِ دل سے بھی یہ نعرہ بلند کرے تو ہم نہ صرف یہ کہ اُس پر اعتبار نہیں کرتے ، اُس میں سو سو کیڑے بھی نکالتے ہیں،جو کسی حد تک درست بھی ہے کہ سانپ کا ڈسا ہو ا، بل کھائی ہوئی رسّی سے بھی ڈرتا ہے۔


میں سمجھتا ہوں کہ” اک نیا پاکستان “ ہمارے لیڈران ِ کرام کے بلند کرنے سے کبھی بھی شر مند ئہ تعبیر نہیں ہو گا، اِ س لئے کہ اِک نیا پاکستان بنانے کے لئے پہلی شرط پاکستان کے ساتھ مخلص ہونے کی ہے اور ہمار ے لیڈران کرام کے خلوص پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔

(جاری ہے)

مختصر لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے لیڈران کرا م کا خلوص دوسرے ملکوں کے گلی کوچوں میں پھلتا پھولتا نظر آ رہا ہے۔

اقبال نے اللہ سبحان تعالیٰ سے شکا یت کرتے ہوئے کہا تھا۔”ء رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر “یہاں ہم یہی شکایت اپنے کسی بھی لیڈر سے کر سکتے ہیں۔جن کے ٹھکانے بیرون ملک بن چکے ہوئے ہیں۔جن کا سرمایہ بیرونی بنکوں میں ہے۔ یہاں تو وہ فقط حکمرانی کے نام پر لوٹ کھسوٹ کے لئے آتے ہیں۔ ” اک نیا پاکستان “ یعنی” اک بنگلہ بنے کا نیارا ‘’اِِس نعرے کو جب بھی کوئی تعبیر ملے گی،عوام النا س ہی کے جوشِ جنون سے ملے گی، وہ اس لئے کہ موجودہ نظام میں حکمرانوں کو تو بہت کچھ مل رہا ہے، اُن کی تو پانچو ں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے ، اِس بے ایمان نظام میں اگر کو ئی نقصان میں ہے تو وہ صرف اور صرف عوام الناس ہیں اور عوام کو یہ حقیقت سمجھنا ہو گی کہ خود مرے بغیر جنت نہیں ملتی۔

جنت اپنے اعمال سے اور خود مر کر ہی ملتی ہے۔
(1) دوسری بات جو عوام النساس کے لئے سمجھنا ضروری ہے۔وہ یہ ہے کہ اسلام میں جمہوریت کی مما نعت کو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان کہیں اپنی پارٹی کو سلام پر فوقیت نہ دینے لگیں ۔جس طرح ہم اپنی اپنی پارٹیوں کو ”پاکستان“ پر فوقیت دینے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ کرپشن کے حوالے سے اپنی اپنی پارٹی کے دامن ِ تار تار پر گفتار کے چاند ستارے ٹانکتے ہوئے کسی بھی عوامی لیڈر کو شرم نہیں آتی ہے اور وہ اپنی پارٹی کی وکالت میں ہر طرح کا جھوٹ بولنے کے لئے تیار ہتا ہے ۔

پرویز رشید کے وانٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں ،اُن پر نا دھندگی کا الزام ہے ۔ لیکن کیا مجال ہے کہ نیا پاکستان بنانے کے داعی میاں محمد نواز شریف کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو، پنجاب پولیس کی کیا مجال کہ وہ میاں صاحب کی پارٹی کے ایک سرکردہ لیڈر کو یا کسی بھی رکن کوہاتھ بھی لگا جائے ؟ موصوف اِس انصاف کی اجازت دے بھی کیسے سکتے ہیں ؟ وہ تو خود ایک بڑی رقم کے نا دھندگان ہیں۔


خواجہ آ صف کے گھر چوری کی بجلی استعمال ہو رہی ہے، یہ شرمناک منظرٹی۔وی پر دکھایا گیا ہے۔الغرض، بڑے لوگوں کی ایسی ہی ضروریات زندگی کا پیٹ بھرنے کے لئے غریبوں پر بوجھ ڈال کر ان کے چولھے ٹھنڈے کر دئے جاتے ہیں اوریہ سب کچھ میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں ہو رہا ہے۔ جنہوں نے نیا پاکستا ن بنانے کا نعرہ لگایا تھا۔
(2) دوسری طرف چند کرپشن کے مقدمات میں امین فہیم اور سابق ویر اعظم جیلانی کے وارنٹ گرفتار ی بھی جاری ہو چکے ہیں ،لیکن تا حال انہیں بھی گرفتار نہیں کیا جا سکا،یہ دونوں بڑی پارٹیو ں کے درمیان ’مک مکاوٴ‘ کی سیاست کا کرشمہ ہے۔

ورنہ ہماری پولیس ؟ وہ تو اپنے مجرم کو بر آمد کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔یہاں مجھے رسول اللہ ﷺ کا ایک فرمان یاد آرہا ہے۔’ تم سے پہلے جو قومیں تباہ ہوئی ہیں وہ اس لئے تباہ ہوئی ہیں کہ اُن میں غریب اور طاقت والوں کے لئے الگ الگ قانون تھے۔‘وطن عزیز میں لا قانونیت کے ان ہی اندھیروں پر کڑھتے ہو ئے ہوئے میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ” جس طرح الّو اندھیرے میں خوش رہتا ہے۔

اسی طرح پاکستان میں لا قانونیت ، غربت و افلا س اور لوٹ کھسوٹ کے اندھیروں میں خوش رہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔“ میں اپنے اس موقف پر آج بھی قائم ہوں اور پاکستان میں عدل و انصاف کے اجالوں کے لئے دن رات دُعا ئیں مانگتا رہتا ہوں۔
الحمد اللہ ! کہ میں اپنے حاکموں کے ہر طرح کے جبر تشدّد کی گرفت سے آزاد ہوں اور وہی لکھتا ہوں جو دیکھتا ہوں ۔

میں ”عقل کُل “ کی خوش فہمی میں ہر گز مبتلا نہیں ہوں۔غلطیاں مجھ سے بھی ہوتی ہوں گی،ہاں ایک بات پر ہمیشہ مطمئین رہتا ہوں کہ میں نے زندگی میں کبھی بھی مصلحتوں کی پاسداری نبھاتے ہوئے نہیں لکھا۔ اپنے وطن عزیز کے نظا م پر قابض رسوائے زمانہ ڈاکووٴں اور لٹیرو ں کے مقابلے میں ، عمران خان کو میں ڈنکے کی چوٹ پر پسند کرتا ہوں۔میں نے کبھی نہیں کہاکہ عمران خان غلطیوں سے پاک صاف انسان ہیں۔

عیوب سے پاک صرف اللہ سبحا ن و تعالی ٰ کی ذات کریمی ہے۔انسان کے اچھا یا برا ہونے کا میرے پاس ایک ہی پیمانہ ہے۔جس میں اچھائیاں زیادہ اور برائیاں کم ہیں،وہ اچھا اور جس میں برا ئیا ں زیادہ اوراچھائیاں کم ہیں، وہ برا ہے اور میری سمجھ کے مطابق یا جو کچھ گزشتہ سالہا سال سے میں دیکھتا چلا آ رہا ہوں، اُس کے مطابق اِس وقت ہماری سیاست کے میدان میں جو سورما نظر آتے ہیں، اُن کے مقابلے میں عمران خان سب سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں کم از کم میرا ضمیر اجاز ت نہیں دیتا کہ میں اُن پر بے سرو پا قسم کے الزامات اچھالتا رہوں،اگر ایسا کروں گا تو نہ صرف خداکا چور کہلاوٴں گا ، حقیقت حال سے ّآگاہی رکھنے والے قارئین ِ کرام بھی مجھ پر’اندھا کتا ہوا پر بھونک رہا ہے‘ کا الزام لگائیں گے۔


(3) تیسری جو سب سے اہم بات ہے،جس پر عوام الناس کو نہ صرف خاصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ،خبر دار رہنے کی ضرورت بھی ہے۔وہ یہ ہے کہ عوام الناس کو ایسے راہزنوں سے بھی بچنا ہو گا، جو ذاتی اغراض و مقاصد اور مصلحتوں کا شکار ہو کر رہنماوٴ ں کے لبادوں میں راہزن بن جاتے ہیں۔مثلاً ایک انتہائی قد آور صحافی نے حال ہی میں عید سے پہلے قربانی کے موضوع پر کالم لکھتے ہوئے شیخ رشید صاحب پر طعنہ زنی کی خوب بمباری کی ہے کہ ان کا عید سے پہلے قربانی کا دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شیخ رشید صاحب نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا بڑاکارنامہ انجام نہیں دیا کہ میں انہیں اپنا لیڈر مانتے ہوئے اُن کی وکالت کرو ں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے کم بیش تین احادیث مبارکہ میں جھوٹ کو ساری برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے سچ بولنے کا جو حکم دیا ہے، اس کے مطابق میں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔جناب والا ! عیدالضحیٰ پر ہلال جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔

ہمارے حکمرانوں کے کرتوتوں سے قطع نظر ، بظاہر ان میں سے کوئی بھی جانور نہیں ہے۔عید سے پہلے قربانی کا علامتی اشارہ شاہانہ نظام کے اختتام کی طرف تھا۔جس شاہا نہ نظام کا سورج عید سے بہت پہلے اُس دن غروب ہو گیا تھا۔جس دن ظل سبحانی کے حکم کی تعمیل سے انکار کرتے ہوئے کئی پولیس آ فیسر اپنی ملازمت سے مستعفی ہو گئے تھے یا چھٹیاں لے کر ظل سبحانی کے احکامات کی گرفت سے آزاد ہو گئے تھے،ظل سبحانی کے جاہ و جلال کا خوف اس دن بھی دم توڑ گیا تھا۔

جس دن دو تین جگوں پرسیلاب زدگان نے ظل سبحانی کی کوئی بات سننے سے انکار کرتے ہو ئے ”گو نواز گو“ کے نعرے بلند کر دئے تھے۔جس دن محترمہ کلثوم نواز اپنی با ورچن کو اپنی کلاس سے واپس اس کی اکانمی کلاس میں بھیجنے پر مجبور ہو گئی تھیں،جس دن پرنس حمزہ شریف ”الحمرہ“ میں ” گو نواز گو “ جیسے نعروں کا سامنا کرنے کی ہمت نہ کرتے ہوئے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا تھا۔

ہاں میاں نواز شریف کے جاہ و جلال کے سوج کو اس دن بھی گہن لگا تھا ،جس دن نیو یارک میں اقوام عالم کے سامنے ڈیڑھ دو ہزار خواتین و حضرات نے ” گو نواز گو “ کے نعرے بلند کر کے انہیں اپنا حکمراں ماننے سے انکار کر دیا تھا۔اِس دور ِ سیاہ میں اپنی صاف گوئی کے حوالے سے شیخ رشید غنیمت ہیں، جو سچ بولتے ہیں،لوگوں کی دم پر پاوٴں رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں اور لوگ انہیں شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔

کسی سچائی کا فیصلہ کرنے کا حق ہم لکھنے والوں کے پاس نہیں ہے۔عوام کے پاس ہے۔ کم از کم ٹی۔وی اینکرز کی یہی رپورٹ ہے کہ ان کے جس پروگرام میں شیخ رشید ہوں ، اسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد دیکھتی اور سنتی ہے،الغرض شیخ رشید کا قربانی سے پہلے قربانی کا علامتی اشارہ کب کا پورا ہو چکا ہے۔میاں صاحب جوک کی طرح کرسی ِ اقتدار سے چمٹے رہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے ؟ کس ملک میں کوئی لیڈر خود پر قتل کی ایف۔

آئی۔آر کٹنے کے بعد بھی اپنی کرسی کے ساتھ چمٹا رہ سکتا ہے ؟ خود پر جھوٹ بولنے کا مقدمہ بننے کے بعد بھی حکومت مین رہ سکتا ہے۔امریکن صدر رچرڈ نکسن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔لیکن چونکہ امریکہ امریکہ میں غیر مسلموں کی حکومت ہے،جنہوں نے اسلام سے اسلام کی ساری خوبیاں اپنا لی ہوئی ہیں۔ بے شک اُن کی فارن پالیسی سبھی طرح کے قوانین سے آزاد ہے۔

لیکن ملک کے اندر یہ لوگ کوئی غیر آئینی بات برداشت نہیں کر سکتے۔
میں اس سے پہلے بھی اپنے کالم ” اپنی اپنی ہمت ہے “ میں لکھ چکا ہوں کہ جنرل محمد ایوب خان ( مرحوم) کے خلاف جمہور کے نبض شناس ذوالفقار علی بھٹو کے احتجاج نے جب زور پکڑا لیا تھا اور عوام کی اکثریت بھی بھٹو (مرحوم ) کے ساتھ ہو گئی تھی تو ایک مقام پر عوام کے غم و غصے نے یہ شکل اختیار کر لی کہ وہ لاہور کی مال روڈ پر ایک کرسی کے ساتھ کسی لا وارث کتے کو باندھ کر اسے مارتے تھے اور جب کتا احتجاجاً چّووٴں چّووٴں کرتا تھا تو لڑکے بالے اُسے کہتے تھے ،” چھوڑ کرسی“ اپنے خلاف عوام کے غم و غصے کی یہ صورت حال دیکھ کر ایوب خان جیسا آ مر بھی ہمت ہار کر بیٹھ گیا تھا۔

جنرل محمدایوب خان کا نام تو محمد شریف نہیں تھا، لیکن وہ واقعی ایک شریف انسان تھے، اپنی یہ تذلیل برداشت نہیں کر سکے تھے اور مستعفی ہو کراقتدار سے الگ ہو گئے تھے۔میاں محمد نواز شریف کو پاکستان کے عوام ایک ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ” گو نواز گو،گو نواز گو“لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ اپنی اپنی ہمت ہے۔
0+0=0جس طرح زیرو جمع زیروکے حاصل کی عزت بڑھانے کے لئے زیرو کو دس یا بیس نہیں بنایا جا سکتا ، وہ زیرو ہی رہتا ہے ،اگر عمران خان نے ”اوئے میاں شریف“ کہہ دیا ہے تو آج اخلاقیات کے سبق پڑھانے والوں کو ماضی قریب کا وہ زمانہ کیوں بھول گیا ہے جب شہباز شریف اپنے انتخابی جلسوں میں جوش خطابت میں ہاتھ نچا نچا کر صدر ِ پاکستان کے لئے کہا کرتے تھے۔

” اگر میں نے زرداری کو گریباں سے پکڑ کر لاہور اور لاڑکا نہ کی سڑکو ں پر نہ کھسیٹا تو میرا نام بدل دینا۔‘ پچھلے دنوں شاید ان کی اس شرط کو پورا کرتے ہوئے ان کا نام بدل کر شو باز بھی تجویز کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ میاں برادران نے سیاست میں آنے کے بعد لوٹ مار کے سوا عزت کا کام ہی کون سا کیا ہے ؟ انہو ں نے جتنی توجہ اپنے خاندان کا بزنس بڑھانے پر لگائی ہے اگر اس کا ایک معمولی سا حصہ غریب عوام کے مسائل پر خرچ کرتے تو آج وہ قوم کے ہیرو ہوتے ۔

اللہ نے انہیں بڑا وقت دیا ہے۔اُن کی عزت بھٹو شہید ہی کی طرح ہو تی ۔ابھی دو تین دن پہلے ہی ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے پروگرام میں بتا رہے تھے،ذوالفقار علی بھٹو کو اُن کے کسی سیاسی چیلے نے کہا۔”آپ بھی اسلام آباد میں ایک گھر بنوا لیں“اُن کا جواب تھا۔”میں ہر اُس غریب آدمی کے گھر میں رہتا ہوں جس کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے۔“یہ ہوئی نا لیڈروں والی سوچ ، یہ’ جاتی عمرہ‘ اور غریب قوم کے خزا نے سے کروڑوں روپے اُس کی سکیورٹی کا خرچ۔

ایسے بے حس لیڈروں کو کوئی اوئے بھی نہ کہئے تو پھر کیا کہئے ؟ کو ئی بھٹو شہید کو اوئے کیوں نہیں کہتا ؟آج زرداری کے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کتنے محل ہیں ؟ اور میاں صا حب نے اپنے خاندان کے لئے کیا کچھ بنایا ہے ؟ کوئی حساب ہے ؟ اِن لوگوں نے قوم ،با لخصوص غریب قوم کے لئے کیا کیا ہے ؟ہم نیا پاکستان بنائیں گے ؟ ایسے بڑے کاموں کے لئے والہانہ عشق کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے لیڈروں کے والہانہ عشق نے قوم کو جو مناظر دکھائے ہیں۔اس کے بعد اُن کے لئے دل کا گوشہ نرم رکھنا یا ان کے کسی حریف پر یہ جانتے ہوئے بھی کہ مکمل اور عیوب سے پاک ذات صرف اللہ سبحان تعالیٰ کی ہے، بچکانہ اور بے سرو پا قسم کے الزامات لگانا حالات سے مجرمانہ بے نیازی کی انتہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :