حیرت ہوتی ہے

بدھ 9 اپریل 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

سبھی ممالک میں ملک کی افواج کو ملک کے دفاع کی دیوار سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی حوالے سے افواج کے خلاف بد گمانیاں پھلانے کو ملک کے دفاع کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے۔ہم پاکستانی بھی ہمیشہ اسی پالیسی پر کمر بستہ رہے ہیں۔ لیکن اب کچھ مدت سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ہر ایرا غیرا ،نتھو خیرا مشرف کو حوالہ بنا کر ا فوج ِ پاکستان کے خلاف ایسی زبان استعمال کر رہا ہے کہ جیسے کسی دشمن ملک کی فوج کے بار ے میں گفتگو کر رہا ہو۔

مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں کچھ لوگ زباں درازی میں اچھی خا صی شہرت رکھتے ہیں۔ جن کے لئے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔
ہم گنتی کے چند جرنیلوں کو حوالہ بنا کر اپنی فوج کے بارے میں، جو مُنہ میں آئے ، کیسے کہہ سکتے ہیں ؟جبکہ ُان فوجی آمروں کو نظریہ ِ ضرورت کے شیلٹر عدلیہ فراہم کرتی رہی ہے اور اُن کی کرسیِ اقتدار کے پائے ہمار ے عوامی لیڈران بنتے رہے ہیں، لیکن ان مجرموں کا نام کہیں نہیں آتا ؟ اور ہم چند آئین شکن جرنیلوں کو حوالہ بنا کر اپنی پوری فوج کے دامن ایثار پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

جس طرح کے حالات ہمارے سامنے آنے والے ہیں،کم از کم اُن کا تقاضہ یہی ہے ہم اپنے دفاع کی دیوار سے اینٹیں نکالنا بند کر دیں۔
”سجھوتا ایکسپریس “کو انڈین فوج کے ایک انتہا پسند ہندو افسر نے تباہ کیا تھا۔ خبیث نے کئی انسانی زند گیو ں کو بڑی بے رحمی سے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ آج تک ہم نے کبھی کسی ہندو ستانی صحافی یا سیاست دان کو اُس انتہا پسند فوجی کو ، جس کا تعلق رسوائے زمانہ انتہا پسند جماعت بی۔

جے۔پی کے ساتھ بتایا جاتا ہے، حوالہ بنا کر ، عوام میں اپنی افواج کے خلاف بد گمانیاں پھیلاتے نہیں سنا۔لیکن یہ باتیں نیشنل ازم سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب کہ یہ کوئی قیاس آرائی ہے اور نہ ہی کوئی بریکنگ نیوز کہ ہمارے سبھی بڑے لیڈروں کے ٹھکانے باہر بن چکے ہیں اور ہمارے سبھی بڑے لیڈروں کا پاکستان کے ساتھ وہی تعلق ہے جو ریکنگ بال کا کسی مسمار کی جانے والی بلڈنگ کے ساتھ ہوتا ہے۔


نہ اجانے ہمارے سیاست دان منافق ہیں یا ان میں صلاحیت کا فقدان ہے، ایک بات طے ہے کہ اب پاکستان کو صرف فوج ہی بچا سکتی ہے،یہ بڑی اچھی بات ہے کہ فوج ایسے برے حالات میں بھی ملک کے آئین کے احترام میں مارشل لاء نہیں لگا رہی۔لیکن اگر وہ اتنا کریں کہ ہمارے قومی لیڈران کو 62/63کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد، اپنی نگرانی میں منصفانہ الیکشن کروا دیں تو ادھ موئے پاکستان کو چور اچکے لیڈران سے چھٹکارہ مل جائے گا اور قوم پر فوج کا یہ بہت بڑا احسان ہو گا، ورنہ ریکنگ بالز اپنا کام کر رہے ہیں اور کسی بڑے حادثے کی شکل میں فوج پر بھی الزام آئے گا کہ وہ طاقت اختیار رکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنی رہی ہے۔


بہر کیف،ہمارے کچھ لیڈران کے غیر زمہ دارانہ بیانات کے جواب میں چیف آف آرمی سٹاف کے زیر نظر بیان پر خوب گرما گرم بحث ہو رہی ہے۔”بعض عناصر کی فوج پر تنقید پر افسروں اور جوانوں کو تحفظا ت ہیں۔فوج اپنے وقار کا ہر حال میں تحفظ کرے گی ۔“کئی قدآور اینکرز نے چیف آف آرمی سٹاف کے اِس بیان پر جس درجہ گہری حیرت کا اظہار کیا ہے۔ اُن کی حیرت کو اگر ترقی یافتہ ممالک کے تناظر میں دیکھا جائے تو سو فیصد درست ہے،ترقی یافتہ ممالک میں سبھی ادارے اپنی اپنی حد میں رہ کر کام کرتے ہیں اور فوج کے سربرہان اور ججز حضرات اخبارو ں میں بیانات نہیں دیتے۔

لیکن دوسری طرف وہاں کے عوامی لیڈران بھی شاہوں کے دیکھا دیکھی شاہ نہیں بن جاتے اور نہ ہی فوج جیسے قومی ادارے کے بارے میں بد گمانیاں پھیلانے کی مہم چلاتے ہیں۔مجھے تو چیف صاحب کے بیان پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کی حیرت پر حیرت ہو رہی ہے۔
جب کہیں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے ، جیسی کہ ہمارے ہاں فوج کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کی تبدیلی جنم لے رہی ہے، تو یہ قدرتی امر ہے کہ لوگ اس تبدیلی کے بارے میں سوچتے ہیں۔

کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ اس تبدیلی کا مطلب کیا ہے ؟ فوج قوم و ملت کے دفاع کا محافظ ادارہ۔جس کی طاقت کا سر چشمہ فوج پر قوم کا اعتماد ہے۔ میں کافی مدت سے اپنے کئی کالموں میں یہ لکھتا چلارہا ہوں کہ چونکہ ہم نیوکلیئر طاقت ہیں ۔ امریکہ جس طرح عراق اور افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا ، اس طرح ہم پر فوجی حملہ نہیں کر سکتا، لیکن ہمیں ہماری فوجی طاقت کی وجہ سے معاف بھی نہیں کر سکتا۔

اس لئے ہماری فوجی طاقت کو ٹھکانے لگانے کے لئے ہمارے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کیا جا رہا ہے، جیسے جیسے ہماری معیشت تباہ و برباد ہوتی جائے گی،ہماری قوت مدافعت بھی ختم ہوتی جائے گی۔ یاد کریں،اس سے پہلے جب کبھی کسی عوامی حکمران پر کوئی اس شک و شبے کا اظہار کرتا تھا کہ اُس نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہمارے ایٹمی پلان کو رول بیک کر دیا ہے تو ہم بڑے یقین کے ساتھ کہتے تھے۔

ہماری فوج کی موجودگی میں کوئی بھی مائی کا لال ہماری ایٹمی طاقت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا ۔ فوج کے لئے عوام کا یہ اعتماد ہی فوج کی طاقت تھا اور انشا اللہ اب بھی ہے۔جس طاقت کو ہمارا دشمن فتح نہیں کر سکتا۔اس لئے اس نے اس طاقت کو مفلوج کرنے کے لئے یہ راستہ اختیار کیا ہے کہ پاکستانی عوام اور پاکستانی افواج کے درمیا ن بد گمانی اور بد اعتمادی کی دیوار کھڑی کر دی جائے اور امریکہ کے اشارے پر قوم و ملت کے ساتھ یہ غداری کرنے والے ، عوامی لیڈروں اورصحافیوں میں بے شمار ضمیر فروش موجود ہیں،یقین کریں ایک ڈھونڈو پچاس ملتے ہیں۔

ورنہ ”فوج اپنے وقار کا ہر حال میں تحفظ کرے گی“ چیف صاحب کے اس بیان میں ایسی کون سی بات ہے؟جس پر حیرت کے اظہار کے لئے ایک پروگرام کیا جاتا اور فوج کی حمایت میں بولنے والے سابق ائیر مارشل اور دفاعی تجزیہ کار جناب شاہد لطیف کو ان کی شکایت کے باوجود بولنے کے لئے کم وقت دیا جاتا۔ سوال ہے ، افواج پاکستان کے پاس قوم کی طرف سے دی ہوئی کوئی عزت اور وقار نہیں ہو گا تو پھر ان میں اور دہشت گردو ں کے گروہ میں کیا فرق رہ جائے گا ؟
ایک مشہور محاورہ ہے۔

”سو سنار کی ، ایک لوہار کی“ ہمارے لیڈروں کی کرپشن تو پاکستان اوکھا سوکھا ہو کے برداشت کر ہی رہا ہے ،افواج پاکستان پر بد گمانی کا حملہ ” ایک لوہار “ کی کے مترادفہے یعنی سو سنار کے مقابل ایک لوہار کی نا قابل برداشت ضرب کے مترداف ہے بس تو ہماری افواج کے خلاف امریکہ کو ایسے ہی لوہاروں کی ضرورت ہے، جسے پاکستان برداشت نہیں کر سکے گا۔


ذرا غور فرمائیں ! ہمارے لیڈران، ہماری قوم کو جان و مال کا بے حساب نقصان پہنچانے والے طالبا ن کے ساتھ مذاکرات اور اُن کی بے سرو پا شرائط پوری کر کے افواج پاکستان کو کمزور ثابت کر کے امریکہ کو پاکستان پر یہ حملہ کرنے کا موقعہ کیوں دے رہے ہیں کہ جب تم لوگ اپنا دفاع نہیں کر سکتے تو اپنے ایٹمی اثاثوں کا دفاع کیسے کر سکو گے ؟ اس بات کو ذہن میں رکھ کے ذرا مذاکرات کی صورت ِ حال کا جائزہ بھی لے لیں ۔


ہم مذاکرات امن کے لئے کر رہے ہیں۔ یہ کیسے مذاکرات ہیں ؟ جس میں ایک باغی گروپ مذاکرات کی شرط یہ دیتا ہے کہ سب سے پہلے ہمارے قیدیوں کو رہا کرواور ایک علاقہ پُر امن مذاکرات کے لئے وقف کر دیا جائے، جہا ں طالبان بے خوف و خطر آ جا سکیں۔گویا اس علاقے سے ، جسے ایک طویل جنگ کے بعد طالبان سے پاک کیا گیا ہے، فوج واپس بلا لی جائے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر طالبان مذاکرات میں مخلص ہوتے تو انہیں افواج پاکستان سے کوئی ڈر یا خطرہ محسوس نہ ہوتا۔

دوسری بات یہ کہ جس علاقے کو طالبان کے قبضے سے واپس لینے کے لئے فوج نے اپنے سینکڑوں جوانوں کی قربانیاں دی ہیں۔اس علاقے کو دوبارہ ان کے حوالے کر دیا جائے ، آ خر کیوں ؟مولانا سمیع اللہ نے سلیم صافی کے پروگرام جرگہ میں کہا تھا۔ہم طالبان کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں،سلیم صافی کی بھی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی، موصوف ایک بار صواتی صاحب کا انٹر ویو لیتے ہوئے ان سے اس بات پر لڑ رہے تھے کہ آپ اتنے مختصر عرصے میں مِلنئیر کیسے بن گئے ہیں۔

صواتی صاحب ۱۹۷۸  سے امریکہ میں بزنس کر رہے ہیں۔وہ کہتے رہے کہ میں امریکہ میں ۳۶ سال سے بزنس کر رہا ہوں۔لیکن سلیم صافی صاحب نے یہی رٹ لگائے رکھی کہ آپ اتنی جلدی کیسے ملنیئر بن گئے ؟ لیکن مولانا سمیع سے انہوں نے بالکل یہ نہیں کہا کہ جناب آپ کے یہ نا خلف بچے قوم و ملت کے لئے وبال جان بن گئے ہیں۔بہر کیف، ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ طالبان ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں،لیکن اُن کی جو شرائط ہیں ، اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہُ ان کی نیت صاف نہیں ہے، اور ان کے مخلص نہ ہونے کی ایک وجہ امریکہ اور ہندوستان بھی ہیں۔

جو ان کی سرپرستی کر رہے ہیں اورجس مقصد کے لئے ان وطن فروشوں کی سرپرستی کی جارہی ہے،وہ مطلب ابھی پور اکب ہوا ؟ جس طرح کا حملہ سپریم کورٹ آف پاکستان پر ہوا ہے، اسی طرح کے چند اور حملوں کے بعد امریکہ کا مطلب پورا ہو جائے گا کہ جب تم لوگ اپنا دفاع نہیں کر سکتے ہو تو اپنے ایٹمی اثاثوں کا دفاع کیسے کر سکو گے،ان کو ہماری تحویل میں دے دوٴ۔

“ ماماں جی کی عدالت کا یہ فیصلہ ہمارے قوم پرست لیڈر گردن جھکا کر قبول کر لیں گے۔
عمران خان کا موقف شرودع ہی سے مذاکرات کے ساتھ تھا۔لیکن سوائے جماعت اسلامی کے کوئی بھی مذاکرات کے حق میں نہیں تھا۔بلکہ عمران خان کو اُن کے سیاسی حریفوں نے طالبان خان کا نام بھی دے دیا تھا۔الغرض باقی سبھی لوگ مذاکرات کے خلاف تھے۔لیکن جیسے ہی طالبان کو افواج پاکستان کے مقابل اپنی شکست نظر آنے لگی ہے، گویا امریکہ کے جہادیوں کو جب موت اپنے سروں پر منڈھلاتی نظر آ رہی ہے تو اُن کی طرف سے مذاکرا ت کا مطالبہ ہوتے ہی سب مذاکرات کے لئے تیار ہو گئے ہیں ۔

عمران خان مذاکرات کے حق میں اس لئے تھے کہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اقوام کے درمیان اختلافی مسئلے ہمیشہ مذاکرات ہی سے حل ہوئے ہیں۔میں آج بھی پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کسی مسئلے میں غلطی تو کر سکتے ہیں۔لیکن کسی بڑی طاقت کو خوش کرنے کے لئے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ نہیں کر سکتے۔میں سمجھتا ہوں جو طالبان پھنسے ہوئے ہیں،ان کے ساتھ کوئی نرمی کا روّیہ ہر گز اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا۔

امن و امان کی صورت حال خراب کرنے والے فسادیوں کے لئے قرآن الحکیم کا بھی یہی حکیمانہ حکم ہے کہ فسادیوں کو چن چن کر ختم کر دو۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم غلطی پر ہو تو کہتے ہیں۔ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں، اس کے بعد جب کفارِ ِ مکہ ایک جنگ ( شاید بدر)کے بعد قیدی ہوئے تو رحمت العالمین صلعم کا روّیہ قیدیوں کے بارے میں رحم و کرم کا غمازی تھا، جب کہ عمر کا اعلان تھا کہ ابوبکر ، عثمان ، علی اور میں ، ہم سب اپنے اپنے رشتے داروں کو قتل کرتے ہیں۔

اس موقعہ پر بھی فسادیوں کے خلاف رحمت العامین کے رحمدلانہ جذبات کے بر عکس ، قرآن الحکیم کا حکیمانہ حکم عمر  کے مشورے کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔ کسی بھی حکومت کی اُس وقت تک رِٹ قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ قیدیوں کو ان کے جرائم کے مطابق سزا نہ دی جائے۔ ہمیں امریکہ کی خوشنودی کا طوق اتار پھینکنے کے بعد، فقط اپنے ملک کا پاسبان بن کر جینا ہو گا۔ قاتلوں کے لئے پھانسی کی سزا بھی بحال کرنا ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :