اردو ادب کے دبستان کا مہکتا پھول ۔۔احساس

جمعرات 17 اپریل 2014

Abdul Majid Malik

عبدالماجد ملک

احساس عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’محسوس کرنا‘ ہیں،اور احساس کا مادہ ہر انسان میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے ،ویسے تو یہ بحث کافی طویل ہے اس لیے میں یہاں ادبی جریدے احساس کی بات کرنا چاہوں گا،شاید یہاں جناب شفیق مراد اور ایم زیڈ کنول نے دم توڑتے ارد و ادب کو محسوس کیا تو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ’احساس ‘کا اجرأ کیا جو کہ ایک احسن اقدام ہے ۔


’احساس جرمنی‘ ایک خوبصورت کتابی سلسلہ ہے اور یہ منفرد کتابی سلسلہ اردو ادب کے گلشن میں کھلکھلاتے پھول کی مانند ہیں جو دبستان ادب میں اپنی خوشبو سے اہل علم و ادب کو معطر کر رہا ہے ،اس جریدے میں عمدگی سے تمام چیزوں کو یکجا کرنے کی خوبصورت کوشش کی گئی ہے اور اس کوشش میں احساس کی انتظامیہ کافی حد تک کامیاب رہی ہے ۔

(جاری ہے)

احساس کے گلشن میں جھانکیں تو کہیں آپ کو غزلوں کی مہکار نظر آئے گی ، کہیں آپ آزاد نظموں کی خوشبو سے لطف اندوز ہونگے ،کہیں اہل علم و ادب نے ادب کی فروغ میں ہونے والی کاوشوں کو سراہا ہے ،کہیں افسانوں نے اپنے خوبصورت رنگ بکھیرے ہوئے ہیں ،کہیں ادبی تقاریب کا احوال خوبصورت الفاظ میں بیان کیا گیا ،کہیں کتب پر خوبصورت آرائیں اور تبصرے نظر آتے ہیں تو کہیں ادبی دنیا میں نئی آنے والی کتب کی نوید کو خوبصورت پیرائے میں شائع کیا گیا ہے۔


احساس جرمنی،حاجی شریف احمد ایجوکیشنل اینڈ لٹریری اکیڈمی کے زیراہتمام شائع ہونے والاادبی افق پر طلوع ہونے والا ایک خوبصورت کتابی سلسلہ ہے ،اور بلاشک و شبہ شریف اکیڈمی جرمنی علم و ادب کے فروغ کے لئے کوشاں ہے اور اس اکیڈمی نے قلیل مدت میں علمی وادبی میدان میں گرانقدر خدمات انجام دے کر عصر حاضر میں نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے ،اس کامیابی کے پیچھے جناب شفق مراد اور ان کی ٹیم کی انتھک کوششوں کا ثمر ہے جس نے حاجی شریف احمد ایجوکیشنل اینڈ لٹریری اکیڈمی کو اس مقام تک پنچایا ہے اس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔


جب بھی اس کتابی سلسلے اور خوبصورت ادبی جریدے ’احساس‘کی بات کی جائے گی تو اس میں ایم زیڈ کنول کا تذکرہ ضرورہوگا اور ان کے تذکرے کے بغیر احساس پر تبصرہ مکمل ہو ہی نہیں سکتا،یہ ایم زیڈ کنول کی کاوشیں ہی ہیں جس نے آج ہم سب کو ایک جگہ لا اکٹھا کیا ہے ،ایم زیڈ کنول ایک خوبصورت ادیب،اور شاعرہ ہی نہیں بلکہ ایک درد دل رکھنے والی خاتون ہیں جنہوں نے ادب کے فروغ کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے ،جو ادب کے راہوں کی پرانی راہی ہیں جنہوں نے اپنا ادبی سفر کئی دہائیوں سے جاری رکھا ہوا ہے اور ان کا پہلا پڑاوٴ ’کائنات مٹھی میں ‘تھا اس کے بعد ان پر کامیابیوں کے در وا ہوتے چلے گئے لیکن زیادہ کامیابیوں نے انہیں بجائے مغرور کرنے کے عاجز بنادیاہے جو کہ ایک انسان دوست اور درد دل رکھنے والی ہستی کی پہچان ہوتی ہے،ایم زیڈ کنول پر بات ذرا طوالت پکڑ رہی ہے ،اور بات کا طویل ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ ان کی ادبی کاوشوں کو گنوانے کے لئے کئی مظامین درکار ہیں،خیر واپس اپنے موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔


احساس کا سرورق ایک منفرد اور دیدہ زیب ہے اس سرورق کی جس بات نے میری توجہ مبذول کی وہ احساس کی درمیان والی الف پر شمع کی روشنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ روشنی اس بات کی دلیل ہے کہ علم و ادب کے میدان میں ہم شمع روشن کرتے رہیں گے اور اپنے حصے کے دیئے جلاتے رہیں گے،شاید یہ شمع شریف اکیڈمی کے ہر پروگرام میں جلا کر اسی بات اعادہ کیا جاتا ہے کہ کہ جہاں میں شمع جلاوٴ کہ بڑا اندھیرا ہے۔


آج کی یہ خوبصورت تقریب جگنو انٹرنیشنل کے زیر اہتمام منعقد ہو رہی ہے ،جگنو انٹرنیشنل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن مجھے امید ہے کہ اس کا آغاز ہی اتنا شاندار ہے تو یقینا اس کا سفر بھی نہایت اچھا ہوگا اور یہ ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے گا،میری دعا ہے کہ جگنو انٹرنیشنل کے تعاون اور حاجی شریف احمد ایجوکیشنل اینڈ لٹریری اکیڈمی نے احساس کے نام سے جو بیج بویا ہے وہ ادبی دنیا میں ایک تناور درخت کا روپ دھارے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
(احساس کی افتتاحی تقریب میں الحمرا ادبی بیٹھک میں پڑھا گیا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :