قتال فی سبیل اللہ اور جماعت اسلامی

جمعرات 4 دسمبر 2014

Abdul Majid Malik

عبدالماجد ملک

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ ”قتال تم ہر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو ناگوار (برا) محسوس ہوتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو،اور تم کسی کام کو اچھا سمجھو جو کہ تمہارے لئے برا ہو اور اللہ تعالیٰ جو جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے“۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک خود مختار ریاست ہے ،اس لئے اس ریاست کے قانون اور رٹ کو جو چیلنج کرے گا وہ مجرم ہو گا اور مجرم کے لئے قانون میں سزا بھی موجود ہے لیکن اس اسلامی ریاست میں اگر کوئی ریاست کی مرضی کے بغیر ”قتال“کرے گا جب ریاستی ادارے سو رہے ہوں اور قانون رشوت کی میزانوں میں تل رہا ہو تو بھی جائز نہیں ہو گا؟؟؟یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی کسی جماعت کا سابق امیر” قتال فی سبیل اللہ“ کی بات کرے گاتو ایک شور مچ جائے گا حالانکہ اس نے یہ وضاحت بھی کی ہو گی کہ مسلمانوں کے لئے جہاد اور قتال صرف فی سبیل اللہ پر ہی جائز ہے اس کے علاوہ اپنی ذات،اقتدار ،عصبیت ،اور مال و دولت سمیت ہر صورت میں وہ فساد ہے مغربی طاقتوں کے غلام اور نوالوں پر پلنے والوں کا بس نہیں چلتا ورنہ جہادی آیات سے قرآن سے نکال دیتے،سید منورحسن صاحب آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ ان لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ جہادی آیات کو قرآن سے نکال دیں کیونکہ اس بابرکت کتاب کی حفاظت کا ذمہ میرے رب نے لیاہوا ہے حالانکہ تعلیمی نصاب سے یہ آیات تقریباََ نکالی بھی جا چکی ہیں۔

(جاری ہے)


سید منور حسن صاحب ایک درویش صفت انسان ہیں وہ لگی لپٹی بغیر بیان کر دیتے ہیں شاید ان کے بغیر سوچے سمجھے بیانات نے جماعت اسلامی پاکستان کو بجائے دوام بخشنے کے تنزلی کی طرف گامزن کیا ہے کیونکہ میرے پاکستان کی سیاست میں سیدھے سادے انسان کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سیاسی میدان میں وہی کامیاب ہے جو دوغلی پالیسی اپناتا ہے اور تیل کی دھار کے ساتھ چلتا ہے ،سید صاحب ایک صاف گو انسان ہونے کی وجہ سے منافقت سے دور ہیں اس لئے وہ اس معاشرے کی دوغلی پالیسیوں کو نہ اپنانے کی وجہ سے سیاسی میدان میں” مس فٹ“ ہیں،پہلے جب منور حسن صاحب کا اس طرح کا کوئی بیان نظر سے گزرتا تو سمجھتا کہ جماعت کی پالیسی ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ اس دائرہ کار میں کاربند ہیں لیکن جب سے سراج الحق صاحب نے امارت کا منصب سنبھالا ہے تو جماعت کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی سیاست میں ایک ہل چل سی مچی ہے ،اور یقینا لاہور کا اجتماع عام ایک کامیاب شو تھا جس میں جماعت نے پورے زور و شور سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ٹھہری،روشن پاکستان،نئے پاکستان کے بعد شاید جماعت بھی اسلامی پاکستان کی تگ و دو میں مصروف عمل ہے ۔


سراج الحق صاحب ایک جوان آدمی ہے جس کا ماضی بے داغ اور قابل رشک ہے ،لیکن جماعت اسلامی کی امارت کا منصب سنبھالنے کے بعد جہاں انہوں نے جماعت کو فعال کیا ہے وہیں بعض لوگ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہیں کہ جماعت اسلامی جو ایک دائرہ کار میں رہ کر سیاسی جدوجہد کرتی چلی آرہی تھی اب اس دائرہ کو وسیع کر دیا ہے یا پھرباقی سیاسی جماعتوں کی طرح تیل دیکھو،تیل کی دھار دیکھو پر عمل پیرا ہو گئی ہے اور انہی باتوں کو دیکھتے ہوئے عمران خان کو بھی کہنا پڑا کہ سراج الحق صاحب وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کر دیں اور بتائیں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں ؟اور سراج الحق نے بھی سیاسی جواب اسی تواتر سے دیتے ہوئے کہا کہ وہ کرکٹ نہیں فٹ بال کے کھلاڑی ہیں ،اور ایک سائیڈ سے کھیلتے ہیں بہر کیف جماعت اسلامی کو ایک جوان اور فعال قیادت سراج الحق کے روپ میں مل گئی ہے جس سے اس نے استفادہ حاصل کرنا شروع کر دیا ہے ،کیونکہ سید صاحب کے زمانے میں یہ جماعت جمود کا شکار رہی ہے ،اب یہ وارم اپ ہو گئی ہے اور پاکستانی سیاست میں کھیلنے کیلئے اکھاڑے میں اترنے کے لئے تیار ہے ۔


بہر کیف جماعت اسلامی ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی،بڑی، پرانی اور نظریاتی سیاسی جماعتوں میں سے ہے،اس میں نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ ایک مکمل سوشل نیٹ ورک ”الخدمت “کے نام سے ہے ،لوگ اس جماعت کو پسند بھی کرتے ہیں فنڈز ،عطیات کے ساتھ ساتھ قربانی کی کھالیں بھی دیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے ،اور جماعت اسلامی کے ساتھ باقی سیاسی جماعتیں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے الحاق کرتی ہیں لیکن ان کے کسی نمائندے کی سپورٹ نہیں کی جاتی ۔


ان سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہ سکتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست ایک گورکھ دھندہ ہے اسے سمجھنے کے لئے اگر انسان قریب جاتا ہے تو پھر بھول بھلیوں میں گم ہو کر یہ سوچتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اگر اسٹیبلشمنٹ کا کردار ضروری ہے تو وہیں پر موروثی سیاست کے فروغ کا رجحان بھی موجود ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ ”قتال تم ہر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو ناگوار (برا) محسوس ہوتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو،اور تم کسی کام کو اچھا سمجھو جو کہ تمہارے لئے برا ہو اور اللہ تعالیٰ جو جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :