مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

اتوار 9 فروری 2014

Abdul Majid Malik

عبدالماجد ملک

ان دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں ،زیادہ تر لوگ مذاکرات کے حق میں بات کرتے نظر آرہے ہیں لیکن کچھ لوگ ان مذاکرات کو وقت کا ضیاع قرار دے رہے ہیں اور کچھ تو یہاں تک بھی کہ رہے ہیں کہ طالبان مذاکراتی عمل کے دوران خود کو دوبارہ منظم کر لیں گے،خیر جتنے منہ اتنی باتیں۔


کوئی بھی مسئلہ بمباری،فوجی آپریشن یا خود کش حملے سے حل نہیں ہوتا ،بالآخر مذاکراتی میز پر ہی کسی مسئلے کا حل بغیر کسی خون خرابے کے نکالا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے شرط یہی ہے کہ دونوں طرف سے مخلصانہ کوششیں کی جائیں ،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور شمالی علاقہ جات میں توحکومتی رٹ کو مسلسل چیلنج کیا جاتا رہا ہے جس سے شمالی علاقہ جات میں امن و امان کی فضا قائم رکھنا دشوار ہوتا جا رہا تھا ،اب دونوں فریقین (حکومت اور طالبان)ٹیبل ٹاک کے لئے ایک بار پھر تیار ہیں۔

(جاری ہے)


پہلے بھی دونوں طرف سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن جب کبھی بھی مذاکرات کے دور شروع ہوتے ہیں تو کوئی تیسری طاقت ان مذاکرات کو سبوتاثر کرنے کے لئے امن اور بات چیت کی فضا میں بارود کی بو پھیلا دیتی ہے جس سے دونوں طرف سے مذاکراتی عمل متاثر ہوجاتا ہے ۔
طالبان اور حکومت کے مذاکرات کو تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو صورتحال کچھ یوں دکھائی دیتی ہے،پاکستان میں تحریک طالبان نے اس وقت زور پکڑا، جب نائن الیون کے سانحے کے بعد امریکا نے افغانستان میں حملے کئے اور پاکستان نے امریکا کا اتحادی بن کر ہر ممکنہ مدد فراہم کی ،جس سے اس نے اپنی افواج اور دوسرا جنگی سازو سامان افغانستان منتقل کیا،اور طالبان شمالی علاقہ جات میں منظم ہونا شروع ہو گئے ان سے سیز فائر کی باتیں بھی ہوئیں جن کی وجہ سے کئی لوگوں نے ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا ،مذاکراتی عمل کی بات کی جائے توطالبان اور حکومت کے مابین پہلا امن معاہدہ اپریل 2004ءء میں ہوا ،جس میں مشرف حکومت نے تحریک طالبان کے امیر نیک محمد کے ساتھ یہ طے کیا کہ گرفتار طالبان رہنماوٴں کو رہا کیا جائے گا اور حکومت طالبان کی مالی امداد بھی کرے گی ،جبکہ طالبان غیر ملکی عسکریت پسندوں کو اپنی پناہ گاہیں فراہم نہیں کریں گے اس معاہدے کو ’شکئی امن معاہدہ‘کہتے ہیں لیکن اس کے بعد کچھ قبائلی عمائدین کو قتل کیا گیاجس کی وجہ سے یہ معاہدہ ناکام ہوا اور دو مہینے بعد شمالی علاقہ جات میں پھر سے فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا،بعد ازاں نیک محمد ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا ،اس کے بعد بیت اللہ محسود نے تحریک کی باگ ڈور سنبھال لی ،حکومت اور طالبان کے مابین ایک بار پھر فروری 2005ءء میں انہی شرائط پر امن معاہدہ ہوا ،لیکن اس معاہدے پر بھی فریقین نے عملدرآمد نہیں کرایا،اور دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رہیں،پھر صوفی محمدنے اپنے داماد مولوی فضل اللہ کے ساتھ مل کر سوات میں شریعت محمدی کے نفاذ کے لئے تحریک چلائی ،جس پر ایک دفعہ پھر امن معاہدہ ہوا ،جسے سوات امن معاہدہ کا نام دیا گیا ،یہاں پر میں ایک بات کا اضافہ کرتے ہوئے جنرل شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کب تک“کا حوالہ دوں گا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ”سوات میں امن معاہدہ حکومت اور فوج نے امریکہ کے دباوٴ پرتوڑا اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیا“،اس معاہدے کے بعد اگست 2008ء ء میں بھی کئی امن معاہدے ہوئے لیکن شاید کسی تیسری طاقت نے وہ معاہدے بھی سبوتاثر کروا کر پاکستان کو جنگ کی آگ میں جھونک دیاگیا، اور اگست 2009ءء میں بیت اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا،بیت اللہ محسود کے بعد حکیم اللہ محسود طالبان کے امیر مقرر ہوئے ،ابھی ان سے جنگ بندی کے والے سے بات چیت جاری تھی اور تقریباََ تمام معاملات طے پا چکے تھے کہ امریکہ نے ڈرون حملے کے ذریعے حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنادیا ،جس پر پاکستان کے علاوہ پہلی بار حامد کرزئی نے بھی کہا کہ حکیم اللہ محسود کو غلط وقت پر نشانہ بنایا گیا ہے۔


ایک بار پھر خونریزی شروع ہو گئی،پاک فوج بھی آپریشن کے لئے تیار ہوگئی لیکن وزیراعظم پاکستان نے غیر متوقع طور پر مذاکرات کو ایک اور موقع دینے کا اعلان کیا ہے دونوں طرف سے کمیٹیاں بھی بن چکی ہیں ،اس بار دونوں فریقین پرعزم ہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں ،لیکن کچھ شرپسند عناصر ان مذاکرات کو سبوتاثر کرنے لئے کاروائی کر سکتے ہیں ۔


یہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں اگر دونوں طرف سے پر خلوص کوششیں کی جائیں،دونوں کمیٹیاں ثالث کا کردار ادا کرنے کے بجائے باختیار اور مخلص ہوں،طالبان آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے ریاست کے اندر ریاست نہ بنائیں اور حکومت بھی ان افراد کو رہا کردے جو غلط فہمی کے نتیجے میں قید ہیں،طالبان اگر شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں تو پاکستان کے ہر شہری کی یہی آواز ہے لیکن ان مذاکرات میں اس شق کو ہٹا دیا جائے اور یہ مطالبہ کیا جائے کہ تمام فیصلے شرعیہ کورٹ کی زیرنگرانی ہوں اور مستقبل میں شریعت کے نفاذ کے لئے کوششیں جاری رکھی جائیں ،طالبان حکومتی رٹ کو چلینج نہ کریں اور اگر ان کے پاس غیر ملکی لوگ پناہ گزین ہیں تو انہیں فوری واپس بھجوا دیئے جائیں ۔

اگر ان معاملات پر سیر حاصل بات چیت ہو گئی تو مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے نہیں تو بعید نہیں کہ کوئی تیسری قوت ان مذاکرات کو سبوتاثر کرتے ہوئے مذاق۔رات بنا دے لیکن ابھی تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ مذاکرات جب بھی کامیابی کے دہانے تک پہنچنے لگتے ہیں تو امریکی ڈرون حملہ ہوجاتا ہے اس بار حکومت کو چاہئے جس طرح امریکہ ان مذاکرات کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہ رہا ہے اسی طرح ڈرون اٹیک بھی ہماری سالمیت اور خودمختاری پرحملہ ہے جب تک مذاکرات ہو رہے ہیں امریکہ بہادر کو بھی ڈرون حملے روکنے کے لئے چٹھی لکھ کر بھیج دی جائے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :