میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

اتوار 16 نومبر 2014

Abdul Majid Malik

عبدالماجد ملک

سیاست ایک ایسا عمل یا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے عوامی حلقوں کے مابین مسائل پر بحث ہوتی ہے اور حکومتی یا ریاستی فیصلے عوامی رائے عامہ کی روشنی میں لئے جاتے ہیں۔
اس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جیسے مذہبی اقدار کے تحفظ کیلئے ،ذاتی مفادات کیلئے،ملکی وقار اور تحفظ کیلئے،عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے اور اقتدار کے حصول کیلئے سیاست کی جاتی ہے۔


اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاست کی تعریف کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے”سیاست ایک ایسا منافع بخش کاروبار ہے جس میں اگر آپ کامیاب ہو گئے تو آپ کو سیاست کے علاوہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی ،کیونکہ کامیاب سیاستدان بن جانے کے بعد آپ کا بینک بیلنس پٹرول کے نرخوں کی طرح بڑھتا چلا جائے گا،آپ کا کاروبار سونے کی کان کے مانند چمک اٹھے گا،اور آپ کے ذاتی اخراجات ایک غریب سے بھی کم ہو جائیں گے کیونکہ آپ کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مملکت خداداد پاکستان پر ہو گی۔

(جاری ہے)


اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی سیاست پوری دنیا کی طرح جمہوریت کو بچانے کے لئے کی جاتی ہے اور یہاں جمہوریت کی اصل تعریف بدل کر کچھ یوں ہو جاتی ہے ”جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس میں جمہور کا استحصال کر کے ان کی امنگوں کا خون کیا جائے اور اپنے اقتدار کو طول دیا جائے“جبکہ حقیقت میں عوام کی حکومت کو جمہوریت کہتے ہیں اور جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے یونانی مفکر’ ہیروڈوٹس‘لکھتا ہے ”جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں“جمہوریت کی سب سے خوبصورت تعریف سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے کی ہے ۔


Goverment of the People by the People,for the people
عوام کے ذریعے ،عوام پر عوام کی حکومت کو جمہوریت کہتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ساری سیاسی پارٹیاں آمریت کو لعن طعن کرتی دکھائی دیتی ہیں ،لیکن اگر کسی بھی جماعت کی بنیاد کو دیکھیں یا عروج پر نظر دوڑائیں تو ان میں وردی کی آمیزش ضرور نظر آتی ہے،میرے ملک میں سیاسی پارٹیوں کی تاریخ کچھ اس طرح سے ہے۔


سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کریں تو اس جماعت کی قربانیاں بلا شک و شبہ سب سے زیادہ ہیں لیکن اس پارٹی میں نظم و ضبط کا مظاہرہ بہت کم نظر آتا ہے اس جماعت کے بانی جناب شہید ذوالفقار علی بھٹواس وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر تھے اور بعد ازاں 1967ءء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی،اس کے بعد پاکستان کی حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی تاریخ کو پڑھیں تو اس کے قائد اور موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب کو سیاست میں ایک جنرل نے متعارف کروایا اور وہ کافی عرصہ تک جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ حکومتی ایوانوں میں اور وزیراعلیٰ پنجاب رہے،اس کے بعد پاکستان کی تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بات کریں تو عمران خان نے اس جماعت کی بنیاد 1996ء ء میں رکھی ،1999ءء میں نواز شریف کا تختہ الٹنے والے جنرل پرویزمشرف کے مارشل لاء کی حمایت کی ۔

بعد ازاں جنرل مشرف کے دوہزار دو میں ہونے والے ریفرنڈم کی بھی حمایت کی،پہلی بار 2002ءء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے واحد سیٹ حاصل کی اور عمران خان رکن اسمبلی منتخب ہوئے،لیکن بعد میں مشرف کے بارے ان کے خیالات تبدیل ہوگئے،پاکستان تحریک انصاف کو اکتوبر 2011ءء کے لاہور میں منعقد ہونے والے جلسے نے پاکستان کی مقبول ترین جماعت بنا دیا۔


جماعت اسلامی پاکستان سب سے پرانی ،بڑی اور نظریاتی جماعت ہے جو پاکستان بننے سے بھی پہلے کی ہے ،نظم و ضبط بھی خوب ہے ،سوشل خدمات کا بھی کافی تجربہ اور اس حوالے سے کافی محرک ہے لیکن آج تک یہ سمجھ نہیں آئی جس جماعت کو لوگ فنڈز اور کھالیں تو دیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں،بہرکیف یہ پاکستان کی سب سے پرانی نظریاتی جماعت ہے اور اس جماعت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ موروثی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اس لئے اس وقت سراج الحق صاحب اس کے پانچویں امیر ہیں ۔


متحدہ قومی موومنٹ شروع میں ایک لسانی تنظیم تھی جس کا ابتدائی دور میں نام ’مہاجر قومی موومنٹ ‘تھا جس کا مقصد اردو بولنے والوں کا تحفظ کرنا تھا بعد ازاں 1997ء ء میں اس کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا ،کراچی کے علاوہ سندھ میں کافی اثر رسوخ رکھتی ہے اور قومی اسمبلی میں اس کی نمائندگی کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے، لیکن کچھ لوگ اس کو پرتشددسیاسی جماعت کہتے ہیں،بہرحال اگر نظم و ضبط کی بات کی جائے تو اس جیسی منظم جماعت پورے پاکستان میں کہیں بھی نہیں ہے۔


جمیعت علمائے اسلام بھی پاکستان کی پرانی جماعت ہے پہلے یہ صرف مذہبی جماعت تھی بعد ازاں یہ جماعت بھی سیاست میں کود پڑی اور 1970ء ء کے عام انتخابات میں حصہ بھی لئے ،اس جماعت کے امیر مولانا فضل الرحمان ہر حکومت میں سے حصہ دار ہوتے ہیں اور ان کی یہ بات بھی زباں زد و عام ہے کہ کوئی حکومت ان کے بغیر بن نہیں سکتی اگر بن گئی تو ان کے بغیر چل نہیں سکتی۔


پاکستان میں اور بھی کئی سیاسی جماعتیں ہیں جن کا تذکرہ کرنا ضروری ہے پھر کسی کالم میں باقی جماعتوں کا بھی ذکر ہو گا ،لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جب بنا اور اس نے چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا تو اس وقت کے ادوار کا اگر آج تقابل کیا جائے تو یہ نظر آئے گا کہ میرے ملک کو اگر آمریت نے نقصان پہنچایا تو اس سے زیادہ ان سیاستدانوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ،وہ میرے ملک کو لوٹتے رہے ،آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست کا احوال ،سیاستدانوں کے قصے،جھوٹے وعدے ،اغیار کی غلامی اور بھیک کا کشکول کا سوچ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے اور دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :