مولانا عبدالرشیدخان۔۔۔۔علمائے کرام کے تاثرات

جمعرات 23 فروری 2017

Muhammad Uzair Asim

محمد عزیر عاصم

ضلع اٹک کی تحصیل حضرو کے ایک چھوٹے سے گاؤں شاہ ڈھیر پانڈک سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالرشیدخان پہ میرے لکھے گئے گزشتہ کالم پہ اکابر علمائے کرام اور مولانا کے متعلقین میں سے بہت سے احباب کے تبصرے موصول ہوئے ،ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا کی محبو بیت کس قدر تھی۔۔۔وہ نہ صرف اپنے علاقہ میں مقبولیت رکھتے تھے بلکہ علمائے کرام کی صفوں میں بھی ان کا امتیازی مقام تھا۔

۔۔۔ان کی ایک اور صفت سخاوت تھی ۔۔۔ان کے جانے کے بعد معلوم ہورہا ہے کہ کتنے گھروں کا چولہا ان کی وجہ سے جل رہا تھا ۔۔۔۔وہ غریبوں کی مدد میں پیش پیش تھے۔۔۔کتنے ہی طلباء نے بتایا کہ ان کے تعلیمی اخراجات استا جی پورے کر رہے تھے ۔۔کئی لوگوں نے بتایا کہ ان کا روزانہ کا جیب خرچ استاجی  پورا کر رہے تھے ۔

(جاری ہے)

۔۔ ابھی تک لوگ بھول نہیں پائے کہ آدمی کیسے جی دار تھے۔

۔۔محفلوں کی رونق تھے۔۔۔اور ابھی تک بھی موضوع ان ہی کی ذات ہے۔۔۔ان کی اچانک جدائی کا صدمہ ہر شخص نے محسوس کیا۔۔۔میرے گزشتہ کالم پہ صبح صبح موصول ہونے والے پیغام میں جناب قاسم خان وردگ نے توجہ دلائی کہ" آپ کے کالم کا بغور مطالعہ کیا،عمدہ تحریر تھی۔۔۔مگر اس میں مولانا مرحوم کے حوالے سے ایک چیز کی وضاحت نہ کی گئی ۔۔کہ ان کا جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ والہانہ تعلق تھا۔

۔۔وہ ایک سیشن میں ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات تحصیل حضرو بھی تھے"۔۔۔اس کے علاوہ بھی قاسم خان وردگ )جنرل سیکرٹری جے یو آئی ضلع اٹک) نے مجھ سے ایک شکوہ کیا۔۔۔جس پہ میں معذرت خواہ ہوں۔وجہ یہ تھی اس حادثہ کے بعد ابھی تک بھی میں ذہنی طور پر حاضرنہیں ہوں۔۔رات کو جے یو آئی ضلع اٹک کے راہنماء مولانا سید بادشاہ (جلالیہ )کا پیغام موصول ہوا۔۔۔ان کا ماموں جان کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔

۔۔وہ لکھتے ہیں کہ "آج اور کل آپ نے اپنے ماموں اور ہمارے بھائی پر لکھا اور خوب لکھا۔۔۔ارادہ تھا کہ فارغ ہوکر تحریر پڑھوں گا۔۔۔مگر پہلے لفظ نے ساتھ لیا اور آخرتک لے گیا۔۔۔آپ کے اشکبار قلم نے مجھ جیسے سخت دل انسان کا بھی دل موم کر دیا۔۔۔ان کی ایک مصروفیت آپ سے رہ گئی۔۔وہ گزشتہ سیشن میں ہمارے ساتھ عاملہ میں نائب امیر تھے۔۔۔واقعی ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمگین ہے۔

۔۔اس رات ڈاکٹر قاری عتیق الرحمان میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ مجھ میں مولانا عبدالرشید خان کے جنازے کے موقع پر بیان کی ہمت ہی نہیں تھی۔۔۔اللہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔۔ان کی سئیات کو حسنات میں تبدیل فرمائے ۔۔۔ان کے لگائے ہوئے پودے شجر سایہ دار اور پھل دار بنا کر ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ۔۔۔"مذکورہ بیان کی سطر سطر سے مولانا سید بادشاہ کی ماموں جان  سے محبت کی خوشبو آتی ہے۔

۔۔اللہ ان کو اس کا اجر نصیب فرمائے۔۔۔بات مولانا کی جماعتی زندگی کی آگئی تو اسی حوالے سے مولانا شیر زمان (امیر جمعیت اٹک)نے تعزیت کے موقع پر فرمایا کہ "ہماری کوئی بھی ایسی اہم میٹنگ نہیں ہوتی تھی،جس میں مولانا عبد الرشید خان موجو د نہ ہوں اور انہوں نے اپنی رائے کھلم کھلا بیان نہ کی ہو۔۔۔ان کی جماعت سے وابستگی والہانہ تھی ۔۔ہم اپنے بہت ہی مخلص دوست اور ساتھی سے محروم ہو گئے۔

۔۔"۔
گزرے روز مولانا انس (مسئول وفاق المدارس اٹک )کا فون آیا کہنے لگے"وفاق کے امتحانات کی ڈیوٹیاں لگانے بیٹھا ہوں ،مدارس سے آنے والے فارم کھولے تو آپ کے مدرسہ سے آنے والے فارم پہ نظرپڑی ،مولانا عبدالرشیدخان کا نام نظر آیاتو دل بہت خفا ہوا،ان کی بہت خدمات تھیں،اللہ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور آپ لواحقین کو صبرجمیل نصیب فرمائے،انسان سوچتا کیا ہے اور ہو کیا جاتا ہے۔

۔"
مولانا بلال بادشاہ سیکرٹری اطلاعات جمیعت علمائے اسلام حضرو نے تعزیت کے موقع پر بتایا کہ مولانا رشیدخان  مجھے فرمایا کرتے تھے کہ ہماری یو سی میں میٹنگ رکھنی ہوا کرے تو مجھے بتایا کریں،وہ جماعت سے بہت مخلص تھے۔اپنے طلباء کو بھی عملی زندگی میں جمعیت کا دست و بازو بننے کی تلقین کرتے تھے۔اور یہ بھی ایک حقیقت کہ یو سی میں جمعیت کو فعا ل بنانے میں ان ہی کا حصہ ہے،یوسی تنظیم سازی کا آغاز انہوں نے ہی کیا تھا۔

۔۔مجھے یاد ہے،اس موقع ہر ڈاکٹر قاری عتیق الرحمان صاحب خود آئے تھے اور یوسی میں کام فعال ہوا تھا۔۔۔
مولانا اظہار الحق (جنرل سیکرٹری جے یو آئی حضرو)نے تعزیت کے موقع پر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ "مولانا عبدالرشید خان کی خدمات دین کے تما م شعبوں میں نظر آتی ہیں۔۔جہاں وہ آپ کی مسجد میں اور مسجد کے ساتھ ملحقہ مدرسہ میں سترہ سال دین کی خدمت کی ،وہاں وہ اپنے مدرسہ کے جید اور سینئر مدرس بھی تھے۔

۔۔سیاسی میدان میں بھی ان کی ایک حیثیت تھی۔۔۔جمعیت کے پلیٹ فارم پہ ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔۔۔ان کی جدائی کا صدمہ یقینا آپ کو بھی ہے مگر ہمارا صدمہ بھی بہت زیادہ ہے۔۔۔وہ نڈر اور بے باک آدمی تھے۔۔۔لایخافون لومة لائم کا عملی مصداق اگر کسی کو دیکھنا ہوتا تو مولانا مرحوم  کی شخصیت موجود تھی۔۔۔اللہ ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے ۔

۔۔"
مولانا فضل وہاب (راہنما جے یو آئی اٹک) نے فرمایا کہ"دو ماہ قبل ہم ایک ہوٹل میں اکٹھے کھانا کھا رہے تھے۔۔مفتی امیر زمان صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔۔میں نے ازراہ مزاح مولانا رشید خان سے کہا کہ ہماری دوستی اور تعلق کو اتنا عرصہ گزر گیا ۔۔۔مگر آپ نے ابھی تک اپنا گاؤں نہیں دکھایا ۔۔۔کھانا بے شک نہ کھلایئے گا ۔۔چائے ہی پلا دیجئے گا ۔

۔۔مگر اپنا گاؤں تو دکھاؤ۔۔۔مولانا نے برجستہ کہا "میرے جنازے پہ میرا گاؤں دیکھ لینا۔۔"اور پھر آج ان کی وفات پہ ہی میں ان کا گاؤں دیکھ رہا ہوں۔۔۔ایک صفت جو میں بیان کرنا ضڑوری سمجھتا ہوں ۔۔وہ یہ کہ مولانا نڈر اور بہادر بہت زیادہ تھے۔۔۔لگی لپٹی کے وہ قائل نہیں تھے۔۔۔جو بات ہوتی ۔۔فورا کہ دیتے۔۔۔جس محفل میں ہوتے ۔۔اپنی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔

۔۔ان جیسے لوگ بہت کم ہیں۔۔۔اللہ ان کے درجات بلند کرے۔۔۔۔"
ماہنامہ الجمیعة کے مدیر مفتی زاہد شاہ صاحب نے بھی مولانا  کی المناک جدائی پہ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بلندی درجات کے لئے دعا کی اور فرمایا کہ مولانا کا مشن انشا ء الہ جاری رہے گا۔۔یہ ہم سب کا سانجھا غم ہے۔۔۔
مفتی محمد ادریس (مقیم برطانیہ)نے تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ "مجھے مولانا کی اچانک وفات سے بہت صدمہ پہنچا ہے۔

۔۔مولانا اورمیں نے اکٹھے ہی جامعہ عربیہ اشاعت القرآن میں پڑھا ہے۔۔۔مولانا ہماری جماعت میں سب سے ذہین تھے۔۔اور یہ بات میں بلا مبالغہ کہہ رہا ہوں۔۔مولانا کا اس زمانے میں مفتی رشید احمد (جامعتہ الرشید کراچی)سے گہرا اصلاحی تعلق تھا۔۔۔وہ ہمیں بھی تلقین کرتے رہتے تھے کہ مفتی رشید احمد کی کتب پڑھا کریں۔۔۔مجھے سمجھ نہیںآ رہی کہ میں کس سے اور کن الفاظ میں تعزیت کروں۔

۔بہت بڑا صدمہ ہے۔۔اللہ ان کے درجات بلند فرمائے"
مولانا قمر الاسلام (صاحبزادہ شخ الحدیث مولانا عبدالسلام)نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ مولانا عبدالرشید خان روزانہ صبح صبح مدرسہ آیا کرتے تھے۔۔حضرت والد صاحب کے پاس۔۔۔۔استاد  پوچھتے کہ ناشتہ کا کیا کرنا ہے تو مولانا فوراً فرماتے "استاجی ناشتہ حافظ منصب کے پاس کرنا ہے"۔

۔۔استادوں کے ساتھ مولانا کی بہت زیادہ بے تکلفی تھی۔۔ہمارے ادارے کے قابلِ فخر ساتھی تھے۔۔۔اللہ آ پ کو صبر
نصیب فرمائے ۔۔۔
مولانا ہارون الرشید (بیوروچیف روزنامہ اسلام اٹک) نے تو اپنے دوست مولانا عبدالرشیدخان پہ انہی صفحات پر کالم لکھ کہ ان کے حوالے سے اپنی یادوں اور ان کی زندگی کا تفصیلی احاطہ کیا ہے۔۔۔
مولانا شبیر احمد (تبلیغی مرکز )فرماتے ہیں کہ مولانا عبدالرشید خان ان طلباء میں نہیں تھے جو فراغت کے بعد مدرسہ اور اساتذہ کو بھول جاتے ہیں ۔

۔بلکہ وہ تو ہر وقت یاد رکھنے والے اور یاد رہنے والے انسان تھے۔۔۔وہ اکثر و بیشتر جمعرات کوہمارے پاس مدرسہ آیا کرتے تھے۔۔۔بہت بے تکلف تھے۔۔۔سب سے زیادہ غم ان کو اپنے مدرسہ کا ہوتا تھا۔۔۔کہ کس طرح طلباء کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔۔۔
ماموں جان  کے میٹرک کے استا د مولانا حافظ نثار احمد الحسینی کہتے ہیں کہ مولانا رشید خان نے چھوٹی سی عمر میں بہت کام کیا۔

۔سکول ہی کی زندگی میں ان کو قرآن مجید کی تعلیم کا شوق تھا۔۔۔درس نظامی کا بھی شوق تھا ۔۔۔مگر اس زمانے میں گھریلوحالات ناسازگار تھے۔۔۔چنانچہ میں نے سکول ہی میں ان کو صرف نحو شروع کرا دی تھی۔۔۔بعد میں حالات ٹھیک ہوئے تو یہ ایک جید عالم دین بنے۔۔۔ان پہ ہم سب کو فخر تھا۔۔۔اللہ کریم عافیت والا معاملہ فرمائیں۔۔۔
الغرض ماموں جان کی پوری چالیس سالہ زندگی کھلی کتاب ہے۔

۔جس میں قرآن و حدیث سیکھنے اور سکھانے ہی کے صفحات ہیں۔۔۔اپنے خاندان کے پہلے حافظ قران اور عالم دین تھے۔۔۔اور علم دین بھی باعمل۔۔۔رسومات اور بدعات کا زمانہ طالبعلمی ہی میں رد کرتے ہوئے اپنی منزل پہ چلتے رہے۔۔۔اللہ نے اولاد میں بھی بچی کو قرآن کی دولت سے مالا مال کر دیا۔۔۔یہ سعادتیں ہر کسی کے مقدر میں کہاں۔۔۔مگر اچانک جدائی اور موت کا دکھ اپنی جگہ موجود۔

۔۔۔اکابر علمائے کرام کے ایسے ہی تعزیتی پیغامات موصول ہورہے ہیں۔۔باقی آئندہ کسی کالم میں ذکر کئے جائیں گے۔۔۔مولانا عبدالرشید خان  پہ کتاب کی اشاعت کا پروگرام بھی بن رہا ہے۔۔اس حوالے سے بھی اگر ا ن کے متعلقین اور دوست احباب اپنی یاداشتیں کتاب میں شامل کرانا چاہیں تو پندرہ مارچ تک [email protected]پر ای میل کر دیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :