ہمارا مائی باپ (سوشل میڈیا)

منگل 21 فروری 2017

Hussain Jan

حُسین جان

ہمارے ایک بہت ہی پیارے ڈاکٹر دوست لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ ماشاء اللہ کافی قابل اورپڑھے لکھے انسان ہیں۔ حال ہی میں عمرہ کرنے کی غرض سے سعودی عریبہ کو رخت سفر باندھا۔ دو تین دن پہلے انہوں نے فیس بک پر اپنی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگ رہے ہیں اور عقب میں خانہ کعبہ نظر آرہا ہے۔ ہمیں تصویر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ بجائے موصوف کا منہ قبلہ کی طرف ہوتا صرف اور صرف تصویر بنوانے کے لیے اُن کو کیمرے کی طرف منہ کرنا پڑا۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب کی نیت کیمرے سے دعا مانگنے کی نہیں تھی بلکہ فیس بک کے لیے ایک عدد تصویر بنوانا تھا جس میں ہمیں پتا چلے کہ بھائی صاحب عمرئے کی سعادت حاصل کرنے گئے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ الگ بات ہے کہ انجانے میں جناب کعبے کو پیچھے چھوڑ گئے۔ خیر سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے دو طریقے ہیں ، مثبت طریقہ اور منفی طریقہ۔

سب سے پہلے ہم مثبت طریقے کو زیر بحث لاتے ہیں کہ اس کے بہت سے فوائد ہیں۔
مثبت طریقہ
سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں ایسے سرائیت کر چکا ہے جیسے خون۔ اور اس کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں اگر موجودہ دور میں زندہ رہنا ہے تو سوشل میڈیا کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر آپ دُنیا سے بہت پیچھے راہ جائیں گے۔ ایجادات کا سلسلہ ٹیلی فون سے نکل کر پتا نہیں کہاں کہاں پہنچ گیا ہے۔

پہلے فون پر کسی حادثے کی خبر دینے میں بھی تھوڑا وقت لگتا تھا۔ مگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے سیکنڈ بھی نہیں لگتا کہ خبر پوری دُنیا میں پھیل جاتی ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ سوشل میڈیا کی زریعے ہمیں عالمی منظر نامے کو سمجھنے میں کافی سہولت ہو گئی ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس سے فائدہ ہوا ۔ اگر کوئی ضرورت مند حکومتی ایوانوں تک نہیں پہنچ پایا تو یہ سوشل میڈیا ہی تھا جس نے اُس کی فریاد پوری دُنیا تک پہنچا دی۔

دُنیا میں کہاں کہاں کیا کیا ہو رہا ہے سب کچھ یہاں ملتا ہے۔ سیکھنے کے عمل کو تیز کرنا ہے تو اس کا سب سے اچھا زریعہ سوشل میڈیا ہی ہے۔ لوگ اس میڈیم سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ نئی نئی تحقیق ہمیں اسی کی بدولت پڑھنے کو ملتی ہیں۔ کون سے ملک کا اخبار کون کون سی خبریں لگا رہا ہے وہ بھی باآسانی میسر ہے۔ یعنی دُنیا واقع ایک گاؤں بن چکی ہے۔ بڑئے بڑئے ریسرچر اس میڈیم سے مدد لے کر اپنے اپنے تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں۔

کسی بھی موضوع پر عوامی ردعمل لینے کا بھی یہ ایک معصر زریعہ ہے۔ نئی نئی ایجادات کے بارئے میں آگاہی کا بھی یہ بہتریں میڈیم ہے۔
اگر آپ نے انگریزی ،اردو، فرنچ،ہندی،ڈچ غرض جو بھی زبان سیکھنی ہو انٹرینٹ اور سوشل میڈیا آپ کو بڑی مدد دیتا ہے۔ دوسرئے ممالک کے لوگوں سے دوستیاں اور اپنے حالات کا تبادلہ خیال کرنے کے لیے بھی یہ سب سے مفید زریعہ ہے۔

بس یوں کہ لیں کہ ایک جہاں ہے جو سوشل میڈیا قید ہے اور ہم اپنی اپنی ضرورت کے تحت اس میں سے مواد کو نکال لیتے ہیں۔ ہم نے بہت لوگوں کے اس کی وجہ سے کامیابی حاصل کرتے تھا۔ کہ انہوں نے سوشل میڈیا سے ہی کچھ سیکھا اور پھر اُس سے لاکھوں ڈالر تک کمائے۔ یعنی مثبت طریقہ سے اس میڈیم کو استعمال کرکے دُنیا سے غربت اور جہالت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لکھاری ایسے ہوتے تھے جن کو لکھنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں تھا مگر انہوں نے سوشل میڈیا کو اپنی آواز بنایا اور کافی شہرت پائی۔

یعنی ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے انسانی ترقی کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔
منفی طریقہ
اب آتے ہیں سوشل میڈیا کے منفی طریقے پر جس کا سب سے زیادہ استعمال میرا خیال ہے ہمارا ملک ہی کر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں سوشل میڈیا وقت ضائع کرنے کا بہترین زریعہ مانا جاتا ہے۔ لوگ گھنٹوں فیس بک پر بیٹھ کر بس لوگوں کی پوسٹیں دیکھتے رہتے ہیں۔

کوئی اپنے طوطوں کی تصاویر لگا رہا ہے تو کسی نے اپنا دادا جان کی میت کو لگا رکھا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی BBQکر رہا ہو تو کافی دنوں تک اُس کا چرچا فیس بک پر رہے گا۔ ایک عدد پینٹ یا شرٹ لینے چلے گئے تو بڑئے سے شاپنگ مال کی تصویر لگا دی جائے گی۔ کسی ہوٹل میں چلے گئے تو ایک ایک ڈش کی باریک بینی سے فوٹو گرافی کر کے تصاویر کو قست وار شائع کیا جائے گا۔

کافی، چائے ،بسکٹ،نان پکوڑئے، حلیم، دال چاول،چارپائی ، پلنگ،سری پائے،ہسپتال وغیرہ وغیرہ کی تصاویر ہم نیکی سمجھ کر لگاتے ہیں۔ اور میں بھی اس میں شامل ہوں کہ اسی قوم کا فرزند ارجمند ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہم سوشل میڈیا کو بطور بلیک میلنگ کے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
بد قسمتی سے بہ حثیت پاکستانی قوم ہم دُنیا سے کافی پیچھے ہیں۔

ہم نے ہر کام سیکھنے میں بہت وقت لگا دیا ۔ جب دُنیا چاند پر پہنچ رہی تھی ہم تب بھی آپسی مسلکوں میں اُلجھے ہوئے تھے۔ کمال کی بات ہے دُنیا میں پورن دیکھنے والوں کی لسٹ میں بھی ہم کافی اُوپر ہیں اور اس کے باجود اکثریت ملک میں اسلامی نظام کی حامی ہے۔ اس دوغلی پالیسی کی بدولت ہم نے بہت نقصانات اُٹھائے ہیں اور ابھی تک اُٹھا رہے ہیں۔ کباڑیے سے لے کر خاکروب تک فیس بک استعمال کر رہا ہے۔

اس سے مراد یہ نہیں کہ ان کو سوشل میڈیا استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ مثبت طریقے سے کرنا چاہیے۔ لیکنجو گندگی ہم نے اس میڈیم پر مچارکھی ہے اس کی بھی نظیر نہیں ملتی۔ گھر کے تمام افراد اپنا اپنا موبائل فون لے کر الگ الگ بیٹھ جاتے ہیں ایک ہی گھر میں ہونے کے باوجود پتا نہیں چلتا کون آیا کون گیا۔ پہلے ہم انگریزوں کو روتے تھے کہ اُن کا خاندانی نظام بہتر نہیں ۔

معذرت کے ساتھ اب ہمارا خاندانی نظام بھی اُن جیسا ہو گیا ہے۔ لہذا ہمیں سوشل میڈا کو مثبت طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ اپنی خامیوں کو دور کرنے کا بھی اس کو زریعہ بنانا ہو گا۔
ان تمام پہلوں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اس طرح دھیان دینا ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے ادارئے بنائے جس میں امتحانات سے فارغ ہوئے طالب علموں کو سوشل میڈیا کے مثبت پہلوں سے روشناس کروایا جائے۔

اس سے ملک میں مثبت تبدیلی لانے میں بہت مدد ملے گی۔ دہشت گردی کے ناسور کو پکڑنے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت اس طرف کوئی کام کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھی ترقی یافتہ اقوام کی طرح اس میڈیم سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا زمانہ ہے اور بدقسمتی سے ہم اس میں بہت پیچھے ہیں ۔ بے روزگاری کو ختم کرنے میں بھی یہ میڈیم ہمیں کافی مدد کرسکتا ہے۔ بس کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اگر حکومت یہ اقدامات کر دے تو ملک کو مزید ترقی کی شارع پر ڈالا جاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :