پاک افغان سرحد پار بمباری

منگل 21 فروری 2017

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

افغانستان پاکستان کی مغربی سرحد پر ایک اسلامی ملک ہے۔افغانستان کی زیادہ تر زمین پہاڑی ہے۔ انسانی زیست کے سامان بہت ہی کم ہیں۔سال میں کئی مہینے اس کے پہاڑوں پر برف جمی رہتی ہے۔ہمیشہ سے افغانستان کے لوگ قبیلوں میں بنٹے ہوئے ہیں۔ہر قبیلے کا اپنا اپنا علاقہ اور وار لارڈہے۔اس طرح یہ ملک وار لارڈز کے رحم کرم پر رہتا ہے۔زندگی مشکل ہونے اور لارڈز کے ظلم ستم سے اس کے عوام میں برداشت کا عنصر بہت ہی کم ہے۔

مشکل زندگی کی وجہ سے بہادری ان میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ شاید اسی وجہ سے فلسفی شاعر علامہ اقبال  نے اس کا نقشہ اپنے شعر میں کچھ اس طرح کھینچا تھا کہ” فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے ترجمانی ۔ یابندہ ِ صحرائی یا مرد کوہستانی“افغانستان کے راستے وسط ایشیا سے حملہ آور ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

خود افغانوں نے بھی ہندوستان پر کئی حملے کیے۔

ان حملہ آوروں میں آریا اور مغل زیادہ مشہور ہوئے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان پر اپنے گرفت مضبوط کر لی تھی تو انہیں مغرب سے اُٹھتے ہوئے کیمونسٹوں کے خطرے سے اپنی حکومت کو محفوظ کرنے کے لیے افغانستان سے ایک سرحدی معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت انگریز سفارت کارسر ڈیورینڈ نے ایک سر حدی حد بندی طے کی تھی جسے ان کے نام ڈیورینڈسے منسوب کیا گیا تھا۔

برٹش ہندوستان افغانستان کے درمیان ڈیورینڈ لین سے مشہورہوئی۔ڈیورینڈ لین کے دونوں اطراف پٹھان قوم آباد ہے ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔۱۹۴۷ء میں ہندستان کا بٹوارہ ہوا تو دنیا کے نقشے پر پاکستان نمودار ہوا۔اس وقت سے یہ ڈیورینڈ لین پاکستان اور افغانستان کی سرحد تسلیم کی گئی تھی۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اسی علاقے سے کئی حملہ آور ہندوستان پر حملے کرتے رہے ہیں۔

اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہندو لیڈر شپ نے افغانستان میں پاکستان بننے سے بہت پہلے اثر و نفوظ بڑھاناشروع کر دیا تھا۔اسی سوچ کے تحت صوبہ سرحد یعنی موجودہ خیبرپختونخواہ اورافغانستان میں قوم پرست تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔پاکستان بنتے وقت صوبہ سرحد میں سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کے بیٹے اور ولی خان کے بھائی ڈاکٹرخان کی ہندوؤں کی سرپرستی میں قوم پرست حکومت قائم تھی۔

اس قوم پرست حکومت کے افغانستان کی قوم پرست حکومت سے بہترین تعلوقات تھے۔ افغانستان کے مشرق کی طرف قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں دو قومی نظریہ کے تحت ایک اسلامی حکومت کی جدو جہد شروع تھی جس نے ۱۹۴۷ء میں اپنی منزل حاصل کر لی یعنی اسلامی جہوریہ پاکستان قائم ہو گیا۔ افغانستان کی دوسری طرف سرخ انقلاب جس نے آدھے یورپ پر اپنا قبضہ مکمل کر کے وسط ایشیا کی مسلمان حکومتوں کو بھی ترکوں سے چھین لیا تھا اور اب سویت یونین کی سر حد دریائے آمو تک پہنچ گئی تھی۔

سویت یونین کی اگلی منزل گرم پانیوں یعنی خلیج تک رسائی تھی۔سویت یونین نے اسی وجہ سے نام نہاد دوستی کی بنیاد پرافغانستان میں بادشاہ ظاہر شاہ کی حکومت میں کمیونزم کے اثرات پھیلا دیے تھے۔ سویت یونین اپنے بانی لیڈر ایڈورڈ کے خواب پر عمل کرتے ہوئے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے بے چین تھا۔ پاکستان دشمنی میں سویت یونین اور بھارت کی سازش کے تحت افغانستان بادشاہ ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ قوم پرست سردار داؤد نے الٹ دیا۔

دوسری طرف صوبہ سرحد میں پاکستان بنتے ہی سرحدی گاندھی نے بھارت اور سویت یونین کی شہ پر پشتونستان کا مسئلہ کھڑاکر دیا تاکہ پاکستان کو ختم کر دیا جائے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پرپاکستان بننے پر افغانستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ پاکستان کے دوسرے حصہ مشرقی پاکستان میں اگر تلہ سازش کے تحت دشمن پاکستان مجیب الرحمان نے بھارت ، امریکا اور سویت یونین کی مدد سے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔

اسی دوران بھارت، سویت یونین اور افغانستان کی مدد سے پاکستان توڑنے اور پشتونستان بنانے کی سازش بھی زوروں پر تھی۔ ولی خان نے سردار داؤد کو کہا تھا کہ اس وقت پاکستان کی فوج بہت کمزرو ہے لہٰذا پاکستان ٹوڑنے کا سنہری موقعہ ہے۔نیشنل عوامی پارٹی کے باغی کارکن جمعہ خان صوفی خفیہ طور پر افغانستان اور سویت یونین کے دورے کرتے رہے تھے۔ افغانستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے سیکر ٹری جنرل اجمل خٹک مقیم تھے اور کہتے تھے کی وہ افغانستان سے سرخ ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان آئیں گے۔

جمعہ خان صوفی بھی اجمل خٹک کے ہمراہ افغانستان میں رہائش پذیر تھے۔ اپنی کتاب” فریبِ ناتمام“ میں لکھتے ہیں کہ وہ سردار داؤد کا پیغام لے کر پاکستان ولی خان کے گھر ولی باغ آئے اور کہا کہ سردار داؤد افغانستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے نوجوانوں کی تنظیم ،پختون زلمے کو فوجی ٹریننگ دینے کے لیے تیار ہے۔ واپسی پیغام میں ولی خان نے سردار داؤد کو کہا کہ پشاور سے کچھ پشتون پائلٹ جیٹ طیارے اغوا کر کے کابل ایئر پورٹ پر اُتریں گے انہیں واپس پاکستان کے حوالے نہ کرنا۔

پھر پختون زلمے اور بلوچ سرداروں کے لوگ افغانستان میں دہشت گردی کے کیمپوں میں تربیت لیتے رہے۔ ٹریننگ لینے والوں میں ایک نجی ٹی کے چڑیا والے نجم سیٹھی بھی شریک تھے۔ پختون زلمے کے نوجوان پاکستان میں تخریبی کاروائیاں کرتے رہے جس نمایاں میں حیات محمد شیر پاؤ کا قتل اور لاہور واپڈا پر بم حملہ جس میں درجنوں پاکستانی شہری شہید ہوئے تھے۔

بلوچستان میں پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیافوج پر حملے کیے گئے۔ اسی وجہ سے بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی تھی اور ولی خان پر بغاوت کا مقدمہ بھی قائم کیا تھا۔صاحبو! یہ ساری داستان سنانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے ہمیشہ قوم پرست افغان حکمرانوں کو پاکستان توڑنے کے لیے استعمال کیا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔

افغانستان پس ماندہ ملک ہونے کی وجہ سے ہمیشہ بیرونی مدد کا خواہش مند رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان دشمنی اور رشوت کے طور پرافغانستان میں بھاری سرمایا کاری کی ہوئی ہے۔ افغانستان کے گیارہ سو فوجی بھارت میں ہر سال فوجی ٹریننگ لے رہے ہیں۔ بھارت نے افغان پارلیمنٹ کی عمارت بھی تحفہ میں بنا کر دی ہے۔بھارت نے افغانستان کو کئی ہیلی کاپٹر تحفہ میں دیے ہیں۔

کابل سے ایرانی بندر گاہ چاہ بہار تک سٹرک تعمیر کر کے دی ہے۔بھارت افغانستان کا پانچویں بڑا ڈونر ہے۔ اے کاش کہ پاکستان بھارت سے زیادہ مدد کر کے افغان عوام کے دل جیت سکتا مگر کسی وجہ سے یہ نہیں ہو سکا۔ بھارت کی اس امداد کے بدلے افغانستان نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ بھارت کو کونصل خانے کھولنے کی اجازت دی ہوئی ہے جہاں بھارت کی خفیہ تنظیم راپاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کی تربیت کرتی ہے۔

پہلے کی طرح اب بھی افغانستان میں پاکستان مخالف ٹریننگ کیمپ موجود ہیں۔دہشت گرد بھارت کی شہ پر پاکستان میں خود کش حملے کررہے ہیں۔ پہلے افغانستان سے بھارت اور سویت یونین پاکستان میں دہشت گردی کرواتے تھے ۔ اب افغانستان بھارت اور امریکا پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں۔ دوسری طرف افغان، بھارت اور اس کا اتحادی امریکا پاکستان میں دہشت گردی کی نرسیوں کا پروپگنڈا کرتے ہیں۔

ایک طرف افغانستان میں طالبان اپنے وطن سے خاصب امریکیوں کو نکالنے کے لیے جنگ کر رہے ہیں اورامریکا اور اس کے ۴۱/ ملکوں کے ناٹو ۱۵/ سال میں ان کو غلام نہیں بنا سکے۔ تنگ آکر ایک ایک کر کے امریکا ناٹو اتحادی افغانستان سے بھاگ گئے ہیں ۔اب فیس سیونگ کے لیے ایک دفاعی کے معاہدے کے تحت امریکا نے گیارہ ہزار فوجی افغانستان میں رکھے ہوئے ہیں۔

امریکا پاکستان پر دباؤ ڈال کو پاک فوج کو افغان طالبان سے لڑانے کی سازش کر رہا ہے ۔ جسے پاکستان ہر گز ماننے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ خود اپنا مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ طالبان کے بعد افغانستان کی دوسری بڑی مزاحمتی تنظیم حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے افغان حکومت سے ایک امن معاہدے کے تحت جس میں امریکی فوج کی افغانستان سے نکل جانے کی شق شامل ہے، لڑائی چھوڑ کربات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی ابتدا کر دی ہے۔

پاکستان افغانستان میں امن کی ہر کوشش کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن افغانستان کی زمین سے بھارت کی شہ پر پاکستان پر اب بھی حملے ہو رہے ہیں۔ حالیہ دہشت گردی کی تازہ لہر کی وجہ سے پاکستانی فوج کے ہیڈ کواٹر راولپنڈی میں افغانستان کے سفیر کو بلا کر ۷۶/ پاکستان دشمن جو افغانستان میں موجود ہیں کی فہرست دی کہ انہیں ختم کریں یاگرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کریں مگر افغان حکومت اس پر عمل نہیں کر رہی۔

ساتھ ہی ساتھ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے افغان باڈر پر پیدل یا ٹرانسپورٹ کو بند کردیا گیا ہے۔ پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے افغانستان میں امریکی کمانڈر سے فون پر بات کرکے پاکستان میں حالیہ دہشت گردی پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے ۔ افغانستان میں موجود جماعت الحرار نے سیون شریف درگاہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔

آئی سندھ کی پریس کانفرنس کے مطابق سہلوت کاروں کی نشان دہی اور درگاہ میں لگے کیمروں کی فوٹیج سے افغانستان سے آئے ہوئے خود کش حمہ آور کو شناخت بھی کر لیا گیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نوز شریف صاحب نے سیون شریف میں سیکورٹی کے ایک اعلی سطح کے اجلاس میں فوج اور سیکورٹی اداروں کو حکم دیا ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر دشمنوں کو ہر حالت میں ختم کر دیں ۔

اس حکم پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی فوج نے افغانستان کے اندر موجود جماعت الحرار کے حملہ آوروں کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ پر بمباری کر کے ان میں سے چار کیمپوں کو تباہ کر دیا ہے۔ حالات نازک صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔لہٰذا حکومت ِپاکستان کو چاہیے کہ فوراًآل پارٹی کانفرنس بلائے اورتازہ صورت حال پر پوری قوم کو اعتماد میں لے۔ قوم کی طرف سے منظور شدہ نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایاجائے۔پاکستان میں موجوددہشت گردوں کے معاونیں کو بھی ختم کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :