دجال۔ قسط نمبر 2

پیر 23 جنوری 2017

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

توکل کے خاتمے کو بعض صوفیائے کرام اور علماء نے ایمان کے خاتمے سے تعبیرکیا ہے-زیادہ سے زیادہ دولت کی ہوس دل ودماغ میں پروان چڑھ رہی ہو تو حصول زر کے جائزوناجائزذرائع کی تمیزرکھنا ممکن نہیں ہوتا اور جہاں جائزوناجائزکی تمیزنہ رہے وہاں ایمان کا کیا کام؟ہم پہلے خود احتسابی کی بھٹی سے خود کو گزارنا ہوگا اگر ہم اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو اغیار کی ساری تدبیریں الٹی ہوجائیں گی کہ اللہ فرماتا ہے کہ”ان کی تدبیریں ان پر ہی الٹ دیں گے“مگر اس کے لیے خود کو اس کے بندے ثابت کرنا ہوگا یہ وعدہ مشروط ہے کہ بھائی کچھ کرکے تو دکھاؤ پھر مدد بھی کردے گا وہ خالق ومالک-مگر یہاں صورتحال مختلف ہے بڑی اکثریت بدقسمتی سے بدترین منافقت کا شکار ہے کہ زبان سے ہرکوئی کہتا ملے گا کون سا کچھ ساتھ لے جانا ہے‘سب نے خالی ہاتھ جانا ہے‘ایک دن سب نے جانا ہے یہ صرف فقروں کی حد تک ہے عمل سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا کہ زبان سے اس طرح کے جملے کہے جارہے ہوتے ہیں تو ذہن میں کسی کا حق مارنے کی منصوبہ بندی چل رہی ہوتی ہے-بنک سے سود پر لی گئی گاڑی اور سود کے پیسے سے کاروبار یعنی جس عمل کے بارے میں انتہائی سخت وعید دی گئی ”یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف جنگ ہے“ایک بڑی اکثریت کاروباری حضرات کی وہ ہے جو جوازتراشتی ہے کہ ہم تو ”اسلامی بنکاری“کے تحت کام کررہے ہیں ‘ایک قریبی دوست نے کہا گاڑی لے لو چند ہزارکی قسط ہے توعرض کیا سود کی طرف تو مرکر بھی نہ جاؤنگا کہنے لگا میں دوگھنٹے سمجھ کر آیا ہوں بنک کے ”مفتی صاحب“سے اور وہ گارنٹی بھی دے رہے ہیں کہ اگر کوئی گناہ ہوگا تو وہ ہمارے سر‘حیرت سے اسے دیکھا اور یاددہانی کروائی کہ قرآن میں اللہ سبحان وتعالی فرماتے ہیں کہ ”ہرنفس اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہوگا“بابل میں ذلت بھری زندگی کے دوران علماء یہود نے ایسا ہی طریقہ ایجاد کیا تھا وہ لوگوں سے مال مویشی مانگتے اور کہتے کہ ہم نے تمہارے گناہ اور بداعمالیاں اس پر ڈال دی ہیں لہذا اسے یہاں چھوڑ جاؤ ہمارے بنکوں میں بیٹھے”مفتیان کرام“بھی لاکھ‘دولاکھ تنخواہ کے لیے اس حد کو توڑ رہے ہیں جو اللہ نے قائم فرمائی اور جس میں ردوبدل کی اجازت نبیﷺ کو نہیں تھی تو یہ مفتی کون ہوتے ہیں -سود کے بارے میں حد اللہ نے قائم فرمائی لہذا اس میں ردوبدل نعوذبااللہ قرآن میں ردوبدل ہے اور قرآن میں ردوبدل کرکے کوئی خود کو مسلمان بھی قرار دے کیسے یقین کریں؟صرف لاہور شہر میں بنکوں سے سود پر لی گئی گاڑیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جب ہر گھر ‘گلی‘محلے اور شہرمیں اللہ اور اس رسولﷺ کے خلاف جنگ جاری ہو تو ان بستیوں پر رحمتیں ہونگی یا عذاب آئیں گے؟کچھ احباب اس پر الااظہرسمیت دنیا کے کئی بڑے جامعات کے فتوؤں کے حوالے بھی دیتے ہیں مگر عقل کے اندھے چھوٹی سے بات کو سمجھنے سے کیوں معذور ہیں کہ یہ حدوداللہ کا معاملہ ہے جس میں تبدیلی کسی انسان کے بس کی بات نہیں چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم فاضل کیوں نہ ہو -نبی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے سورة البقرہ میں کہ وہ ”آیات میں تحریف کرتے“ایک اور جگہ یہ الفاظ وار د ہوئے کہ ”وہ اپنے پاس سے باتوں کو اللہ سے منسوب کرتے ہیں “ اور پھر ایک وارننگ ہے کہ ”ان کی طرح نہ ہوجانا“مگر افسوس کہ واضح اور کھلے الفاظ میں انتباہ کے باوجود ہم نے امت کو ”ان جیسے ہونے“سے بچانے کے لیے کوئی پیش بندی نہیں کی -آج والدین خواہش رکھتے ہیں کہ ان کا بچہ انگریزی بولے اور اس کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیئے جاتے ایک اندازے کے مطابق پاکستانی اپنی مجموعی آمدن کا چالیس فیصد سے زائد بچوں کی تعلیم پر خر چ کررہے ہیں مگر کبھی والدین نے یہ دیکھنے کی زحمت گورا کی ہے کہ تعلیم کے نام پر کون سا زہر انڈیلا جارہا ہے قوم کے نونہالوں کے ذہنوں میں؟نیوورلڈ آڈرکے منصوبہ سازوں کے مقاصد میں بڑے شہروں کومزید وسعت دینا‘تعلیم کے ذریعے ذہن سازی کرکے ذہنی غلاموں کی ایک فوج ظفرموج تیار کرنا‘دنیا کا معاشی کنٹرول مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لینا‘لوگوں کو عدم تحفظ(جان‘معاش اور معاشرتی اعتبار سے)کا شکار کرنایہاں تک کہ اولاد والدین اور بھائی ‘بھائی کو شک کی نظر سے دیکھے‘نوح انسانی کو مکمل طور پر اپنا غلام بنا کررکھنا -سروائیولیسٹ کئی ممالک میں ”ملک دشمن“سمجھے جانے لگے ہیں ‘ایسے گروپ جو خودانحصاری پر یقین رکھتے ہیں اور حکومتوں سے بھیک مانگنے کی بجائے وہ زندہ رہنے کے لیے خوراک سمیت دیگر تمام ضروریات خود پیداکرتے یا بناتے ہیں‘امریکا جیسے ملک میں بھی سروائیولیسٹ شک وشبہ کی نظرسے دیکھے جانے لگے ہیں کیونکہ دنیا کی نام نہاد حکومتوں کو انسانوں کی نہیں بلکہ”غلاموں“کی ضرورت ہے اور ان کے نظام کو کسی بھی سطح پر چیلنج کرنے والا باغی اور قابل گردن زنی قرار پارہا ہے-آپ اخلاقی ‘معاشی‘معاشرتی کسی بھی طرح کی کرپشن کریں کسی حکومت یا ادارے کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگتی مگر جونہی آپ اس نظام کو چیلنج کرتے ہیں آپ کو دہشت گرد‘غدار‘ملک دشمن جیسے القابات دیکر نیست ونابود کردیا جائے گا-پاکستان کی ہی مثال لے لیں سیاستدان‘افسرشاہی(سول‘فوجی‘عدالتی)صنعت کار‘تاجروں سے لیکر گلی محلے میں منشیات بیچنے والا ہو یا ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والا دوکاندار سب قانون کی گرفت سے آزاد ہیں اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو چند دنوں میں باہر آجاتا ہے کیس چلتا ہے اور پھرسب کچھ فائلوں میں دفن ‘ایک ایسا ملک جس میں جیب میں مال رکھ کر آپ کوئی بھی جرم انجام دے سکتے ہیں اور اگر آپ غریب ہیں تو بغیرکسی گناہ اور جرم کے پوری زندگی کال کوٹھری میں گزارنا پڑسکتی ہے اور کئی بار تو سولی پر بھی چڑھنا پڑتا ہے کہ جرم افلاس کی سزا ہے-وزیراعظم صاحب کے خلاف کرپشن کا کیس دائرہوتا ہے تو خم ٹھونک کر اعلی ترین عدالت میں کہا جاتا ہے ثابت کرو بھائی صفائی آپ نے دینا ہے اور جب” دھند چھنٹے“لگتی ہے تو استثنی کی درخواست دائرکردی جاتی ہے-اخلاقیات کس بلا کا نام ہے؟ہماری سیاست اور حکمران مکمل طور پر اس سے عاری ہیں -پوری قوم نے دیکھا اور سنا کہ پاناما کا سکینڈل آنے سے پہلے وزیراعظم کے صاحبزادے کے انٹرویوزکروائے گئے پیش بندی کے طور پر جس میں انہوں نے کئی اعتراف کیئے ‘کئی داستانیں سنائیں ‘سکینڈل سامنے آیا تو وزیراعظم صاحب نے قوم سے خطاب کیا ‘پارلیمنٹ کے ”مقدس“ایوان پر خطاب فرمایا اور ایسے المناک نوحے پڑھے کہ پتھر دل سے پتھر دل موم ہوجائے‘معاملہ ملک کی اعلی ترین عدالت میں گیا تو سب کچھ مکر گئے‘وہی اعلی ترین عدلیہ جو معمولی معاملات پر اخباری خبروں کی بنیاد پر ازخود نوٹس لے کر پوری حکومتی مشنری ہلادیتی ہے اس کیس میں اس کے ہاتھ ‘پیر پھولے ہوئے ہیں ہمارے منصف قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ میں جناب وزیراعظم کی تقریرکو بطور ثبوت قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں -جج صاحبان فرمارہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تیریسٹھ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو پوری پارلیمنٹ نااہل ہوجائے گی یعنی کھلے عام تسلیم کیا جارہا ہے کہ ”مقدس “ایوانوں میں چوروں اور ڈاکوؤں کا راج ہے مگر انہیں پکڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کاروائی ہوسکتی ہے ‘یعنی عام آدمی کے لیے قانون اور ہے اور خواص کے لیے اور کیا ہمارے جج صاحبان نے قرآن نہیں پڑھا”اور کئی قوموں کو اس لیے ہلاک کردیا گیا کہ وہ انصاف نہیں کرتے تھے“اور ایک حدیث مبارکہ ﷺ میں فرمایا گیا ”ہلاکت ہے ان کے لیے جن کے غریبوں کے لیے قانون اور امراء کے اور “ کیا ہمارے منصفوں کو علم نہیں کہ کئی قوموں کو صرف اس لیے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا کہ وہ انصاف نہیں کرتے تھے-انصاف کا حق تو یہی ہے کہ جوسزا عام شہری کے لیے ہو وہی حکمران کے لیے--- جاری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :