صبرسے محنت تک

اتوار 22 جنوری 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اس نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی ۔۔ بنک بیلنس اور مال و جائیداد نہ ہونے کے باوجود اس کے غریب والدین نے اس کی بہتر تعلیم و تربیت کیلئے وہ سب کچھ کیا ۔۔ جواکثر امیر ۔۔ جاگیردار ۔۔ سرمایہ دار اور وڈیرے بھی اپنی اولاد کیلئے نہیں کر پاتے ۔۔ اس کی ماں اور باپ نے روکھی سوکھی کھا کر اس پر گزارہ تو کیا لیکن اس کو کبھی کسی موقع پر گزارے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا ۔

۔ لاڈلی ہونے کی وجہ سے ماں باپ دونوں نے اپنا آج اس کے کل پر قربان کیا ۔۔ وہ بھی کسی لمحے ایثار و قربانی اور صبر و شکر میں والدین سے کبھی کم نہ نکلیں ۔۔ جتنا ملا ۔۔اس پر صبر و شکر کرکے منزل کی طرف بڑھتی گئی ۔۔ کبھی کسی کے سامنے زبان پر شکوہ و شکایت کا کوئی ایک حرف بھی نہیں لایا ۔۔ والدین کی توقعات ۔

(جاری ہے)

۔ خواہشات ۔۔ امنگوں اور امیدوں پر وہ ہمیشہ اسی طرح پوری اتری کہ پلے گروپ سے لے کر ایم اے تک ماں کیا۔

۔؟ باپ کو بھی کبھی انہیں ڈاٹنے کی کوئی نوبت و ضرورت پیش نہیں آئی ۔۔ بیٹی ہو کربھی اس نے ہمیشہ غریب والدین کو بیٹے کی طرح سہارا دینے کی کوشش کی ۔۔ فرمانبردار ۔۔ تابعدار ۔۔ وفادار اور لاڈلی جیسی صفات کی حامل ہونے کے باعث وہ غریب والدین کیلئے ہر دکھ ۔۔ درد ۔۔اور ہر تکلیف کی دوا بنی رہی ۔۔ تعلیم سے فراغت کے بعد گھر کا نظام چلانے میں والدین کا ہاتھ بٹانے کی خواہش میں اس نے نوکری کیلئے ہر سرکاری محکمے پر دستک دی ۔

۔ نہ جانے کہاں۔۔ کہاں ٹیسٹ و انٹرویو ۔۔اور کہاں۔۔ کہاں تعلیمی اسناد و دیگر کاغذات انہوں نے جمع کرائے ۔۔ لیکن اعلیٰ تعلیم اور قابلیت کی انتہاء کوچھونے کے باوجود رشوت و سفارش نہ ہونے کی وجہ سے وہ ۔۔سرکارکے ہرگھراورہر در سے خالی ہاتھ واپس لوٹی ۔۔ لیکن وہ کوئی روایتی لڑکی اور شکست ماننے والی نہیں تھی ۔۔ اسے تو آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی والدین نے آگے بڑھنے اور بڑے سے بڑے پہاڑ سے ٹکر لینے کی تربیت دی تھی ۔

۔ اس کی رگوں میں تو ہر وقت حلال کمائی اور حلال رزق سے وجودپانے والا خون دوڑ رہا تھا ۔۔ ایسے میں دنیا کے غاصبوں۔۔ چوروں ۔۔ اور لٹیروں کے سامنے وہ کیونکر ہتھیار ڈالتیں ۔۔ سرکار کے ہر گھر اور در سے ٹھکرانے کے باوجود وہ ہار نہیں مانی ۔۔۔ نہ وہ ہاتھ پر ہاتھ اور پاؤں پر پاؤں رکھ کر بیٹھیں ۔۔ ظالموں کی نگری میں اس نے جینے کی ٹھانی ۔۔ اعلیٰ تعلیم اور درجنوں ڈگریاں پاس ہونے کے باوجود اگر مجھے سرکاری نوکری نہیں مل رہی تو کیا ہوا ۔

۔ ؟میں پرائیویٹ جاب کرکے گھر کا نظام چلاؤں گی پر والدین کو کبھی مایوس نہیں ہونے دوں گی ۔۔ان پہاڑجتنے مضبوط عزائم اورہمت کی صفت سے مالامال شمائلہ نذیر سے میری ملاقات 7 سال پہلے اس وقت ہوئی جب وہ ایک اخبار میں بطور مارکیٹنگ منیجر کام کرتی تھیں ۔۔ تنخواہ تو اس وقت ان کی بہت کم تھی لیکن اس کے کام کو دیکھ کر یوں لگتاتھاکہ شائد ان کی تنخواہ اس ادارے میں سب سے زیادہ ہے ۔

۔ سورج چڑھنے کے ساتھ وہ آفس کی گاڑی لیکر کام پر نکلتی اور پھر اس وقت واپس آتی جب چھٹی کے ٹائم کو بھی رخصت ہوئے کئی گھنٹے گزرے ہوتے ۔۔ ایمانداری اور دیانتداری کو اس نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا ۔۔ شائد یہی وجہ تھی کہ اس قلیل تنخواہ میں بھی ان کا اچھا خاصا گزارا چلتا تھا ۔۔ ایم اے ، بی بی اے اور ناجانے کون کونسی ڈگریاں اور کس پایہ کی تعلیم۔

۔ پھر بھی ایک مزدور جتنی تنخواہ ۔۔ لیکن اس کے باوجود شمائلہ نذیر کی زبان سے میں نے کبھی شکوہ و شکایت کا کوئی ایک حرف و لفظ نہیں سنا ۔۔ وہ اپنی محنت ۔۔ ایمانداری اور دیانتداری سے اپنی منزل کی طرف بڑھتی گئی ۔۔ ایک وقت میں پھر وہ ادارہ بھی ختم ہوا ۔۔شمائلہ نذیرکے سامنے جومدہم سی روشنی تھی وہ بھی بجھ گئی۔۔ میرا بھی شمائلہ نذیر سے رابطہ دنیاوی مصروفیت اور پریشانیوں کے باعث منقطع رہا ۔

۔ پھر ایک دن ایبٹ آباد میں کسی کام سے مجھے ایک نجی بنک جانا پڑا ۔۔۔ بنک کے اندر داخل ہوتے ہی نظروں کے سامنے آنے والا چہرہ مجھے کچھ جانا پہچانا لگا ۔۔ میں آگے بڑھا ۔۔ مجھے دیکھتے ہی وہ کرسی سے اٹھی ۔۔ جوزوی بھائی ۔۔ آپ!۔۔ میرے دل و دماغ کے بند دریچے بھی آہستہ آہستہ کھلنے لگے ۔۔ آخرسات سال پہلے انتہائی قلیل تنخواہ پردن بھرکام کابوجھ اٹھانے والی شمائلہ نذیرکوایک بنک آفیسرکے روپ میں ۔

۔میں پہچان گیا۔۔دعاسلام اورحال احوال کے بعدوہ گویاہوئی۔۔جوزوی بھائی وہاں سے نوکری ختم ہونے کے بعد میں گھر نہیں بیٹھی ۔۔وہاں سے امیدکادیابجھنے کے بعد میں نے اس بنک میں نوکری کے لئے اپلائی کی اورپھرکچھ دنوں میں ہی یہاں بھرتی ہو گئی۔۔ میرے تو یہاں اب نوکری کے بھی چار پانچ سال ہونے کو ہیں۔ ۔۔ یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہو ئی ۔۔ پھر شمائلہ کے ساتھ فون پر اکثر رابطہ ہوتا رہتا تھا لیکن ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔

۔ ایک دن پھر جس جگہ ان کا بنک تھا اس کے آس پاس اپنے کسی کام سے جانا ہوا تو پھر ان سے ملاقات ہوئی ۔۔ اس دن وہ بہت خوش تھی ۔۔ کہہ رہی تھی۔۔ جوزوی بھائی۔۔ میری ترقی ہو گئی ہے ۔۔میں نے کہا انشاء اللہ تم بہت جلد بنک منیجر بھی بن جاؤ گی ۔۔ شمائلہ نذیرکاچھ ہزارسے چالیس پچاس ہزارتنخواہ تک یہ سفر ملک کے ان نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہے جو سرکاری نوکریوں کے انتظار میں گھر بیٹھے اپنا قیمتی وقت اور عمر ضائع کررہے ہیں۔

۔ محنت ۔۔ لگن اور کام کرنے کاجذبہ اگر ہو تو کوئی بھی کام مشکل اور کہیں بھی نوکری ناممکن نہیں ۔۔ شمائلہ نذیر نے رشوت اور سفارش کے بغیر اپنا خواب پورا کر کے یہ ثابت کر دیا کہ رشوت اور سفارش ہی سب کچھ نہیں ۔۔ کوئی بھی انسان اگر محنت کرے تو پھر انہیں زندگی میں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔۔ مانا کہ رشوت ۔۔ سفارش ۔۔ اور میرٹ کے قتل عام کے باعث ہمارے اکثر نوجوان اپنے حق سے محروم رہتے ہیں لیکن اگر ہمارے یہی نوجوان مایوسی کی چادر اورڑھنے کی بجائے شمائلہ نذیر کی طرح محنت ۔

۔ ایمانداری اور دیانتداری کو اپنا شعار بنائیں تو میرٹ کے دشمنوں اور رشوت خوروں کو آج نہیں تو کل ضرور منہ کی کھانی پڑے گی اور وہ اپنے کئے پرایک نہ ایک دن ضرور پچھتائیں گے ۔۔ اس لئے ہمیں مایوس ہونے کی بجائے محنت سے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ مایوسی اقبال کے شاہینوں کے شایان شان نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :