تربیت کی ضرورت ہے

جمعرات 19 جنوری 2017

Muhammad Arslan Farid

محمد ارسلان فرید

تم کرپٹ ہو، نہیں تم زیادہ کرپٹ ہو، میں تمھیں سڑکوں پر گھسیٹوں گا، ہماری ٹانگیں مت کھینچو، جمہوریت کو خطرہ ہے، ملک اس وقت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم تقریبا روز ہی سنتے ہیں۔ ہمارے ملک میں آپ کسی بھی شخص سے بات کر کے دیکھ لیں وہ آپ کو سیاست کا رونا روتا دکھائی دے گا۔ ہمیں سیاست دانوں نے دیا ہی کیا ہے، پتہ نہیں یہ کہاں سے ہم پر مسلط ہو گئے ہیں، پتہ نہیں کب ہماری دہشتگردوں سے جان چھوٹے گی، پتہ نہیں کب اس ملک میں امین قائم ہوگا۔

اس ملک کے لوگ تھک ہار کے اب ایک ایسے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں جو چٹکی بجاتے ہی سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ مسیحا آئے گا کہاں سے؟ کیا وہ کہیں باہر سے آئے گا؟ یا ہم میں سے ہی ہو گا؟ باہر سے کوئی ہمارے لئے کیوں آئے گا یعنی وہ ہم میں سے ہی ہوگا۔

(جاری ہے)

مگر یہ سیاستدان بھی تو ہم میں سے ہی ہیں یعنی ہم میں اور ان سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں۔

تو ہم یہ کہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل اس ملک کی حالت سدھار لے گی۔ مگر یہ کیا ہم اپنی آنے والی نسل کو دے کیا رہے ہیں؟ اس قوم کے معمار اگر اس فرسودہ نظام سے جسیے کیسے تعلیم حاصل کر بھی لیں، ان کی تربیت کون کرے گا؟ آخر اس قوم کے معماروں کی تربیت کس کے ذمے ہے۔ کیا ماں باپ کی ذمہ داری صرف اپنے بچے کو سکول میں داخل کروانے کی حد تک ہی ہے؟ شاید آپ نے خبر پڑھی ہو، اسلام آباد میں ساتویں جماعت کے طالب علم نے مبینہ طور پر اپنی ٹیچر سے محبت میں ناکامی میں پیٹ میں گولی مار کر خودکشی کر لی۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی میٹرک کے دو طالب علم محبت میں ناکامی کے باعث خودکشی کر چکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس عمر میں ان بچوں نے یہ سب باتیں سیکھی کہاں سے؟ یہ بچے جب یہ باتیں سیکھ رہے تھے تب ہم کیا کر رہے تھے؟ ان بچوں کو برے بھلے کی تمیز کون سکھائے گا؟ کیا ان بچوں کو جینے کا کوئی حق نہیں تھا؟ کیا ان بچوں کی صحیح تربیت نہ ہونے کے ذمہ دار بھی یہ سیاستدان ہی ہیں؟ اگر ساری ذمہ داری سیاسندانوں پر ہی عائد ہوتی ہے تو ہم کس لئے ہیں؟ لوگ کہتے ہیں کے معاشرہ بہت خراب ہو گیا ہے۔

یہ معاشرہ بنانے والے بھی تو ہم ہی ہیں نہ، تو خرابی کہاں ہے؟ آخر ہم لوگ یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتے کہ خرابی ہم میں ہی ہے اور اسے ٹھیک بھی ہم ہی نے کرنا ہے، باہر سے کوئی مسیحا نہیں آنے والا۔ جتنی جلدی ہم اس بات کو تسلیم کر لیں گے اتنے ہی اس قوم کے معمار موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں گے۔ جناب والا صرف تعلیم سے کچھ نہیں ہو گا اس قوم کے معماروں کو تربیت کی اشد ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :