نظام بچے گا یا محنت کش عوام !!

جمعرات 29 دسمبر 2016

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

اگر عام لوگوں نے 27دسمبر2007ء کے سانحہ لیاقت باغ کے بعد آہ وبکاہ نہ کی ہوتی ،اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے رنج وغم محسوس کرکے اپنا سب کچھ پیپلز پارٹی کی قیادت کے پسماندگان کیلئے نچھاور نہ کیا ہوتا تو 27دسمبر 2016ء کو گڑھی خدابخش میں پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا ایک جذباتی حصہ انکے دلوں کے تار ہلاسکتا تھا، جس میں انہوں نے اپنی ماں اور نانا کے قتل ، اپنے خاندان کے ساتھ عدلیہ کی ناانصافیوں کو دلگیر انداز میں پیش کیا۔

مگرکیا کیا جائے ان درمیان کے 9سالوں کا جس میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے مرکز میں پانچ سال تک حکومت کی اور سندھ میں ابھی تک انکی(بانجھ) حکمرانی جاری ہے۔ اس حکمرانی میں کہیں بھی وہ تاثر موجود نہیں تھا اور نہ ہے ‘جس کو اب بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں بیان کیا ہے۔

(جاری ہے)

محض لفاظی سے واقعات اورگزرے وقتوں کے کردار کو تبدیل کرنا ممکن ہوتا تو دنیا بھر میں ہونے والی تمام غلطیوں اور جرائم کو تاریخ کے کینوس سے مٹایا جاسکتا تھا۔

مگر بلاول بھٹو اور انکے والد گرامی’ جناب زرداری‘ عام شعور کے بارے میں کچھ زیادہ ہی غلط فہمی کا شکار ہیں۔2008-13ء کی ناکام ،نااہل اوربدعنوان حکومت کے بعدپیپلز پارٹی عرصہ دراز سے چلے آنے والے ’نظریاتی بحران‘کے بعد اپنے وجود کی بقاء کے اہم سوال کا شکار چلی آرہی ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ کچھ سالوں سے بلاول کی نئی قیادت کو پرانی قیادت نے چلانے یا لانچ کرنے کی کئی کوششیں کیں مگر ہر دفعہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

پچھلے کئی مہینوں سے بلاول کے خطابات میں ہر مصالحہ ڈالا گیا،بھٹو جیسا انداز بیان اور جسمانی حرکات،بے نظیر جیسی کاٹ،لہجہ اور انداز تخاطب،بھٹوکی بھارت کے خلاف بڑھک بازی،دھمکیاں ، کبھی لبرل ،کبھی ثقافتی ٹچ، کبھی ترقی پسندی کی جھلک تو کبھی پسماندہ ترین بنیاد پرستی کی پگڑیوں کے پہناوے۔ مگر تضادات ہیں کہ نہ تو چھپائے جاسکتے ہیں ا ور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کی گئی۔

کسانوں کے مسائل، شوگر مافیا کے مظالم اور لوٹ مارکے فسانے بیان کرنے سے پہلے اور بعد میں اسی’ مافیا‘کے ظلمت کدے کو آماجگاہ بنانے میں کسی تردد کا سامنا نہ شرمندگی۔مفلوک الحال لوگوں کی ترجمانی کرنے کیلئے ہوائی سواری کی دھاک بٹھانا ضروری سمجھا، آسمان سے اس طرح سے اترے کہ ہیلی کاپٹرنے غریبوں کے میلے پٹکوں کو اور دھول زدہ کردیا ۔

مخادیم ، خانوں اور سرداروں کے محلات میں قیام وطعام کے درمیانی عرصے میں غریبوں کی غربت پر اظہار خیال بھی فرمایا۔تضادات کا تسلسل بلاول کی سیاست کے موجودہ مرحلے میں خاص طور پر 27دسمبرکی تقریر میں بہت گہرا ہوتا دکھائی دیتا ہے اور ساتھ یہ تاثر بھی کہ پچھلی قیادت ،نئی قیادت کو چھوٹاسے چھوٹا اختیار بھی آزادانہ طور پر دینے کیلئے تیار نہیں جسسے انکا ’نظام‘ خطرے کی طرف صرف ’رخ‘ کرتا بھی محسوس ہو۔

27دسمبر2007ء سے پہلے بلاول نے یہ تاثر دینے کی شعوری کوشش کی تھی کہ وہ اپنی والدہ کی برسی پر اپنی سیاست کا کوئی نیا انداز شروع کریں گے ، جس سے دیگر سیاسی پارٹیوں کو پتا چلے گا کہ احتجاجی سیاست ہوتی کیا ہے۔ احتجاجی تحریک کو شروع کرنے کے جواز کیلئے ‘انہوں نے چار نقاطی مطالبات پیش کئے اور انکے تسلیم نہ کئے جانے کی صورت میں ‘ تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔

یہ مطالبات نہ تو عوامی نوعیت کے ہیں اور نہ ہی انکے پورے ہونے سے پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں کی زندگیوں میں کسی قسم کی تبدیلی کی امیدہے۔ بلکہ یہ نان ایشوز کاایک بنڈل یا پارٹی پیک ہے ،جس کی تشہیر کاروباری انداز میں کرکے اس کو مقبول بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ لہذا ایسے امکانات بہت ہی کم ہیں کہ ’وزیر خارجہ کی تقرری‘ ،سی پیک کے روٹ،’ سیکورٹی کمیٹی کی تشکیل ‘یا پانامہ ایشو پر لوگوں میں کسی قسم کی ہلچل پیدا کی جاسکے جو حکمرانوں کی ’اقتداری سیاست ‘ سے دورغربت ، مہنگائی، بے روزگاری اور سرمایہ داری نظام کے ڈسے ہوئے ہیں۔

عام لوگ اس نظام کی بدعنوانی کو پچھلے ستر سالوں سے بھگت رہے ہیں،انکے سامنے ہر روز حکمران طبقے کا کوئی نہ کوئی مالیاتی بدعنوانی کا سکینڈل آتا ہے ،اس لئے بدعنوانی اور لوٹ مارکے باوجود’ پانامہ لیکس‘ میں عوام کو متحیر کرنے والی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔حکمران طبقے کا نظریاتی اور مالیاتی بدعنوانیوں کا پختہ کردار عوام کو انکی سیاست سے بے زار ہوکر لاتعلق ہونے پر مجبور کرچکا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میڈیا اور ریاست کے کچھ دھڑوں کی ہمدری ، ساتھ اور پوری کوشش کے باوجود عمران خان کے دھرنے،احتجاج،مارچ اور لاک آوٹ کی تمام تر کاوشوں کو عوامی پزیرائی نہیں مل سکی۔ بے نظیر کی نویں برسی کے موقع پر انکے مزار کے سامنے کھڑے ہوکربلاول بھٹو زرداری نے جلسے کی وساطت سے سے کچھ سوالات بھی کئے ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ہمیں ماضی میں رہنے والے قراردیتے ہیں میں ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی جن مسائل کیلئے بنی تھی کیا وہ حل ہوگئے ہیں؟ بھٹوز نے جن مقاصد کیلئے جان کی قربانی دی تھی کیا وہ مقاصد حاصل کرلئے گئے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ معیشت میں جمہوریت ، مساوات ، انصاف نہیں ہے۔یہ(نوازشریف اینڈ کمپنی) اپنی معیشت میں مزدوروں، کسانوں کو حصہ دار بنانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ساری دولت غریب کے خون، پسینے اور آنسو ں کی وجہ سے ہے؛ شہید بھٹو کے افکار کے مطابق انکی زندگی بہتر بنائیں۔ انکے بچوں کو تعلیم دیں ، انکو بہتر اجرت دیں تاکہ وہ واپس آکر پھر اس معیشت کو بہتر بنائیں۔

بلاول بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی میں پہلی دفعہ کئی سنجیدہ طبقاتی مسائل اور پارٹی کے قیام کے مقاصد کے متعلق ایشوز کو برسرعام بیان کیا ہے۔یہاں پر کوئی ’افلاطونی‘ سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سادہ سی بات ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو یہ سوالات پوچھنے کی بجائے ان کا جواب خوددینا چاہئے اور پارٹی کی جملہ قیادت سے بھی طلب کرنا چاہئے۔

خاص طور پر یہ سوال پارٹی کی اعلی قیادت کے سامنے رکھنا چاہئے کہ پارٹی کے چار دفعہ اقتدار میں رہنے کے باوجود ’پارٹی بنانے کے مقاصد‘ کیوں نہیں حاصل ہوسکے؟ اس سے بھی قبل زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جس نظام کو بچانے کی اپنی کاوشوں کا باربار تذکرہ بلاول کے والد کرتے ہیں کیا اس نظام زرمیں پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کے مقاصد حل کرنے کی اہلیت موجود ہے ؟ اگر یہ اہلیت آج( جب سرمایہ داری کی ناکامی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں رہی)سے پچاس سال پہلے بھی ہوتی تو پھر بقول ’ذوالفقار علی بھٹو‘ پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کی ضرورت نہیں تھی،کیونکہ اس وقت پاکستان میں سرمایہ داری نظام کی حلیف اور اس نظام پر تکیہ کرنے والی درجنوں پارٹیاں 1967ء میں موجود تھیں۔

دیگر بہت سے تضادات جو بلاول کی تقریر میں موجود تھے میں سب سے اہم تضاد یہی ہے کہ جو ’نظام ‘ انکے بقول اپنی معیشت میں مزدوروں اور کسانوں کو اپنا حصہ دار بنانے کیلئے تیار نہیں ہے ،اسکو بچانے کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کے دونوں قائدین اور انکی ہاں میں ہاں ملانے والی نام نہاد سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کیوں سردھڑ کی بازی تک لگانے میں مصروف ہے جب کہ ان کاوشوں میں اس کا اپنا وجود تک خطرے سے دوچار ہے۔

بلاول شعوری یا لاشعوری طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ اگر اس نظام کی ضرورت اور حاکمیت ‘ لاہور میں نرسز، ڈاکٹروں ، اساتذہ ، نابینا بے روزگاروں پر لاٹھیاں برساتی ہے تو کراچی میں بھی یہی نظام ہے اور یہاں بھی ’عوامی حکومت‘ کے ہاتھوں پکڑے ڈنڈوں، واٹر کینن کا استعمال مزدوروں ہی کے خلاف ہورہا ہے۔نجکاری کے ذریعے اگر نوازشریف قومی اداروں کو اپنے دوستوں کے نام پر خود لیتا رہا ہے تو نجکاری پالیسی اور ’پبلک ،پرائیویٹ پارٹنر شپ‘ کے مقاصد کہاں پر مقدس اور محنت کش طبقے کیلئے مفید ہیںَ؟ ایک طبقاتی نظام میں عدالتوں کا کردار کیسے ’عدل وانصاف‘ کے تابع ہوسکتا ہے۔

بلاول سمجھ سکتے ہیں کہ یہ وہی مکروہ نظام ہے جس کو وہ اور انکے والد بچانے کیلئے کوشش کررہے ہیں ،جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ مرکزی حکومت اور سندھ میں پچھلے آٹھ سالوں کی حکومت کو تعلیم عام اور مفت نہیں کرنے دی اور انکی حکومت علاج معالجے کے وہ کمزور ذرائع بھی پبلک سیکٹر سے نجی شعبے کو منتقل کررہی ہے جس سے غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے کسی حد تک مستفید ہورہے ہیں۔

بلاول اگراپنی ماں اور نانا کی موت کا انتقام لینے کے خواہشمند ہیں تو ان کو ”اقتدارپرستی“ کی سیاست کے ذریعے پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں کو اور زیادہ غریب ، بے بس، مفلوک الحال اور پسماندہ طرز زندگی کا غلام بنانے کی بجائے ،اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنے کا اعلان کرنا چاہئے،جس نے پیپلز پارٹی بنانے کے مقاصد طے کرنے کے جرم میں ذوالفقارعلی بھٹو کو سزادی اور موت کے گھاٹ اتارا اور اسی نظام کی ”اقتداری سیاست“کی بھول بھلیوں نے بے نظیر بھٹو بھٹو کو موت کی وادی تک پہنچادیا۔

پاکستان کے محنت کش پچھلے پچاس سالوں سے اقتدارپرستوں کی بلی پر چڑھتے آرہے ہیں، وہ اپنے ساتھ ہونے والے دھوکوں ،غداریوں اور جرائم کا کسی حد تک ادراک پاکر اس ’نظام زر کی باندی ‘سیاست سے منہ موڑ چکے ہیں۔ کوئی نیا دھوکہ،نان ایشو اور انکے طبقاتی مفادات کے برعکس کوئی مہم انکو تحرک میں نہیں لاسکتی۔ محنت کشوں کو انکی نجات کا ایجنڈا دینا ہوگا اور اسکے لئے پیپلزپارٹی کی تاسیسی دستاویزات پارٹی قیادت کو راہ گم گشتہ کی بجائے درست راستہ فراہم کرسکتی ہے۔اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ یا یہ نظام بچے گا یا محنت کش عوام۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :