عہدِ راحیل شریف اور کراچی کے عوام۔۔۔!

جمعہ 9 دسمبر 2016

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

29 نومبر 2016 کو روالپنڈی جنرل ہیڈ کوارٹرز میں آرمی چیف کمان تبدیلی کی تقریب منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے 15ویں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہوئے اپنے منصب کی کمان نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سونپی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے 16 ویں آرمی چیف کی حیثیت سے اگلے تین سال اپنی خدمات انجام دیں گے کمان تبدیلی کا یہ عمل یقیناً جمہوریت کے لئے خوش آئند جبکہ پاک فوج کی پیشہ ورانہ تربیت کا مظہر ہے۔

جنرل راحیل بطور پاک فوج کے سربراہ اپنے عہد کے ایک بااثر اور طاقتور شخصیت رہے ہیں جنھوں نے اپنے دور میں کئی کارہائے نمایاں انجام دئیے ملک میں درپیش سیکیورٹی چیلنجز سمیت اندورنی و بیرونی خطرات کے پیش نظر غیر معمولی اقدامات اٹھائے جن میں نیشنل ایکشن پلان، آپریشن ضربِ عضب سمیت کراچی آپریشن نمایاں ہیں کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل میں جنرل راحیل کا اہم کردار ہے جبکہ یہ کریڈٹ بھی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ایٹمی دھماکوں کی طرح اپنے نام لکھوائے بیٹھے ہیں بہر حال کارنامہ کسی کا بھی ہو اِس کو عملی جامہ پہنانے میں پاک فوج کا اہم کردار رہا ہے اور اِس کے لیے ملکی عوام کو نہ صرف پاک فوج کے کردار کو سراہانا چاہیئے بلکہ پاک فوج اور اُسکی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی حمایت کا مکمل یقین دلانا چاہئیے اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک منصوبہ پاکستان کے لئے نہ صرف اکنامک ڈور کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں میں استحکام کا ذریعہ بھی ہے۔

(جاری ہے)

جہاں تک آپریشن ضربِ عضب کی بات ہے بہتر حکمتِ عملی اپناتے ہوئے پاک فوج کو کامیابی سے ہمکنار کرانا جنرل راحیل ہی کا کارنامہ ہے جس میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے کے ساتھ ساتھ مذہب کی آڑ میں چھپے دہشت گرد عناصر کی سرکوبی سے لیکرملک سے انتہاپسندی کو اکھاڑ پھینکنا شامل ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ملک سے مستقل بنیادوں پر دہشت گردی کا خاتمہ کردیا گیا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ سورش زدہ علاقوں میں فلحال امن و امان کی صورتحال میں کافی حد تک بہتری آئی ہے اِس حوالے سے متاثرہ علاقوں میں نہ صرف خصوصی فنڈز جاری کئے گئے بلکہ نقل مکانی کرنے والوں کو دوبارہ آبادکرکے ان کیلئے تعلیم صحت روزگار جیسے مواقع فراہم کرنا بہتر اقدامات میں شامل ہے۔

بلوچستان کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو وہاں پر بھی جنرل راحیل نے بلوچ باغیوں سمیت پہاڑوں پر بیٹھے ناراض سیاسی رہنماؤں کو واپس لانے میں بحیثیت آرمی چیف سیاسی قیادت سے ملکر مثبت کردار ادا کیا بلوچستان کے حوالے سے جہاں تک دیکھا جائے پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے وزیراعظم نواز شریف نے پہاڑوں میں بیٹھے باغی بلوچ نوجوانوں کو مذاکرات کے ذریعے ایک فارمولے کے تحت واپس قومی دھارے میں شامل ہونے پر آمادہ کیا․ فارمولے کے تحت بلوچستان میں پہلے ڈھائی سال صوبے کے وزیراعلیٰ بلوچ ناراض رہنماؤں کے حمایت یافتہ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بنائے گئے جبکہ بعد کے ڈھائی سال حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ثناء اللہ زہری کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا گیا۔

یہ فارمولا یقیناًبلوچستان کی صورتحال کے پیش نظر ایک کامیاب فارمولا طے پایا تھا جسے آج بھی کامیابی سے چلایا جارہا ہے۔جس کے باعث بلوچستان میں بغاوت کی سورش میں نہ صرف واضح طور پر کمی آئی بلکہ صوبے میں سیاسی استحکام بھی پایا جانے لگا۔گوادر بندرگاہ کے شروع ہونے کے بعد صوبہ مزید ترقی کی جانب گامزن ہوتادکھائی دیگا۔ جنرل راحیل شریف کے یہ وہ کارنامے ہیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جہاں تک سندھ میں کراچی آپریشن کی بات ہے وہاں کچھ عوامی حلقے جنرل راحیل کی پالیسی سے مکمل طور پر متفق نظر نہیں آتے جہاں ایک جانب جنرل راحیل نے رینجرز کو خصوصی اختیارات دیتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز ٹارگیٹ کلنگ بھتہ مافیا جیسے گروہوں کا خاتمہ کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی اور شہر کی امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنایا اس سے کراچی کے عوام کسی حد تک تو مطمئن رہے لیکن پھراچانک اِس آپریشن کا رخ ایک سیاسی جماعت کی جانب موڑدیا گیا جس کے باعث کراچی میں امن و امان کی صورتحال تو بہتر ہونے لگی لیکن ساتھ ہی سیاسی بے چینی کی فضا بننا شروع ہوگئی․ اِس بات سے انکار نہیں کہ اگر کسی سیاسی جماعت میں جرائم پیشہ عناصر موجود ہیں اُس کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے اگرکسی شخص یا جماعت سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہے تو اُس کیلئے ضروری ہے کہ ملکی سلامتی کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں لیکن ساتھ ہی زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے عوام میں پھیلنے والی بے چینی کا تدارک کرنا بھی اتناہی ضروری ہے ایک خاص کمیونیٹی جو پہلے ہی سے محرومیوں کا شکار ہے ایسے میں اُنھیں نمائندہ جماعت سے محروم کردینا اردو بولنے والوں کو خصوصی پیکج سمیت کسی بھی طرح کے اختیارات سے محروم رکھنا کسی طور بہتر حکمتِ عملی نہیں یہی وجہ ہے کہ دیگر آپریشن کی نسبت کراچی آپریشن میں نہ پوری طرح دہشت گردوں کی کمر توڑی جاسکی اور نہ کراچی کے غریب عوام کو اِس حوالے سے مطمئین کیا جاسکا آج بھی کراچی کے عوام ایک عجیب گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں وہ ابھی تک میدان میں اترنے والی کسی نئی سیاسی جماعت پر بھروسہ کرنے سے قاصر ہیں اِس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی و عسکری قیادتوں کی جانب سے محرومیوں کا ازالہ نہ کرنا ہے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے کچھ ماہ پہلے سندھ کے شہری علاقوں کا احساس محرومی دور کرنے کے حوالے سے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں سندھ سے کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی تجویز تو پیش کی لیکن اُس پرتاحال عملدرآمد نہ کرایاجاسکا۔

امید ہے نئے آرمی چیف اِس جانب توجہ فرماتے ہوئے سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کراچی کے عوام کیلئے خصوصی پیکجز اور بااختیار بلدیاتی نظام کے حوالے سے سندھ حکومت پر ذور ڈالیں گے اگر آج بھی کراچی کے عوام کے لیے بلوچستان طرز کا فارمولا ترتیب دیتے ہوئے محرومیاں دور کی جائیں اردو بولنے والے کو بھی سندھ کے اقتدارمیں شراکت داری دیجائے غریب و متوسط طبقے کیلئے بااختیار بلدیاتی نظام متعارف کرادیا جائے انکے شہروں میں بھی یونیورسٹیاں قائم کردی جائیں سندھ سے کوٹہ سسٹم ختم کرکے غریب و متوسط طبقے کے بچوں کو بھی روزگار کے مواقع فراہم کردئیے جائیں نئی مردم شماری کے تحت آبادی کے درست تناسب سے حلقہ بندیاں کرادی جائیں تو یقین کریں دہشت گردوں جرائم پیشہ عناصر سے رینجرز کو نمٹنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئیگی کراچی کے عوام خود ایسے عناصر سے لاتعلقی اختیار کرکے اُنکا قلع قمع کردیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :