خدا نہ کرے کہ بھول جائے کوئی

ہفتہ 26 نومبر 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

کسی کو بھول جانا بے اعتنائی اور بے وفائی سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے شاعروں نے اسے اپنا موضوع سخن بنایاہے۔ قتیل شفائی نے اپنے محبوب کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے جبکہ ساغر صدیقی کہتے ہیں کہ
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ تو ایک شاعرانہ تخیل اور دلی کیفیت ہے لیکن کبھی ایسا ہو سکتا ہے انسان کے اپنے بس میں ہی رہے اور وہ بھول جانے کا شکار ہوجائے ۔

روز مرہ کے معاملات میں بھول جانا ایک عام سی بات ہے لیکن اگر بھول جانے کا وہ مرض لاحق ہو جسے الزائمر کہتے ہیں تو یہ انتہائی پریشان کن صورت ہوتی ہے۔ یہ مرض عمومی طور پر ساٹھ سال کے بعد حملہ آور ہوتا ہے اور ابتداء میں نسیان کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

انسانی دماغ میں ایک ارب کے قریب خلیے ہوتے ہیں لیکن بیس سال کی عمر سے ہی یہ خلیے کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور چالیس سال کی عمر کے بعد روزانہ دس ہزار خلیے ختم ہوتے جاتے ہیں۔

یہ ایک قدرتی عمل ہے اور اس کا کسی بیماری سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ عمر رسیدگی کا حصہ ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب کسی کو پڑھنے، لکھنے اور بات چیت میں دشواری ہو۔ ٹیلی وژن دیکھنے اور دیگر کام کاج میں توجہ مرکوزکرنے کا مسئلہ شدت سے درپیش ہو۔ معمولی حساب کتاب کرنا اور مقامات کو یاد رکھنا مشکل ہوجائے اور جب مرض شدید ہو تو اپنے گھر کا راستہ بھی بھول جاتاہے۔

اگر کوئی اپنی چابیاں کہیں رکھ کر بھول جائے تو یہ ایک عام سی بات ہے لیکن اگرکوئی چابی استعمال کرنا بھول جائے تو یہ سنگین مسئلہ ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباََ پانچ کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ سویڈن میں ایک فی صد یعنی ایک لاکھ افراد جبکہ پاکستان میں نصف فی صد آبادی تقریباََ دس لاکھ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں یہ مرض دنیا کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔

اس مرض میں مبتلا لوگ دس سال تک زندہ رہتے ہیں اور وہ وہ زندگی مریض اور گھر والوں کے لئے بہت دشوار ہوتی ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ مستقبل میں اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔
یہ مرض کیوں لاحق ہوتا ہے ۔درست طور پر وجوہات کا ابھی علم نہیں لیکن وراثتی عوامل، طویل عرصہ پژمردگی میں رہنا، سر پر مسلسل چوٹین لگنا مثلاََ مکے بازی کا کھیل، بلند فشار خون اور خون میں شکر کی مقدار کم رہنا اس مرض کے محرکات سمجھے جاتے ہے۔

ابتداء میں اس مرض کی تشخیص آسان نہیں۔جسم میں وٹامن بی کی کمی ، Scans CT PET, اور MRI سے دماغ کی حالت سے معالج کو تشخیص میں مدد ملتی ہے ۔یہ ایک لاعلاج مرض ہے اگرچہ کچھ ادوایات مرض کی شدت اور تکلیف کم کرنے کے لئے دی جاتی ہیں لیکن زیادہ توجہ مریض کی نگہداشت پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس مرض سے بچنے کے لئے ماہرین صحت جسمانی اور ذہنی آزمائش کی ورزش جسیے کراس ورڈ کو مفید قرار دیتے ہیں۔

زیادہ عمر میں کوئی اور زبان سیکھنا بھی بہت فائدہ مند ہے۔ جاپانی اور بحیرہ روم کے خطہ یعنی اٹلی، ہسپانیہ اور یونان کی غذائیں جن میں زیتون کا تیل، مچھلی، سبزیاں پھل شامل ہیں اس مرض سے بچاؤ میں معاون ہیں۔ اپنے طرززندگی کو بہتر رکھنا، مطالعہ کا شوق، آلات موسیقی کا استعمال، باغبانی، زیادہ سماجی میل جول اور حلقہ احباب بھی اس مرض سے دور رکھتا ہے۔

ذیابیطس، بلند فشار خون ، امراض قلب اور خون میں شکر کی کمی الزائمر کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ دنیا کی کئی معروف شخصیات الزائمر کی شکار ہوئی ہیں جن میں بیگم نصرت بھٹو اورسابق امریکی صدر رونلڈ ریگن بھی شامل ہیں۔ امریکہ میں مقیم معروف پاکستانی نیوروسرجن ڈاکٹر ایوب خان اومایا جنہوں نے دماغ کی چوٹ اور رسولیوں کے علاج کے لئے طریقہ وضع کیا جسے Ommaya Reservoir کہا جاتا ہے جو آج بھی کیموتھراپی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، وہ بھی اس دماغی مرض الزائمر کا شکار ہوئے اور 2008میں ان کاانتقال ہوا۔

اس مرض میں مبتلا افراد اور ان کے اہل خانہ کی رہنمائی کے لئے انجمنیں اور صحت عامہ کے شعبہ میں ادارے قائم ہیں اور ان سے مزید معلومات مل سکتی ہیں۔ پاکستان میں معلومات کے لئے یہ ویب سائیٹ ہے۔ http://alz.org.pk/ ۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہمیشہ صحت و تندرستی عطا فرمائے۔
آخر میں ایک اور معاملہ جس کا تعلق الزائمر سے تو نہیں لیکن جان بوجھ کر بھلا دینے سے ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی کے انسٹیٹیوٹ برائے جنوبی ایشیا میں اقبال چئیر قائم ہے جس کے سربراہ کی تعیناتی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

یہ نشست گذشتہ تین سال سے خالی ہے اور حکومت پاکستان کی غفلت کی وجہ سے اس کے لئے کسی کی تعیناتی نہیں کی گئی ۔ جرمنی اور یورپ میں فکر اقبال کے فروغ کے لئے یہ مرکز اہم کرادر ادا کررہا ہے لیکن حکومت پاکستان کی عدم توجہی اور لاپرواہی ناقابل فہم ہے۔ جرمنی میں مقیم معروف صحافی ادیب اور شاعر جناب سید اقبال حیدر کئی بار وہاں سفیر پاکستان کی توجہ اس جانب دلا چکے ہیں لیکن اس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں نکلا۔ اپنے اس کالم کے توسط سے ارباب اختیارسے گذارش ہے کہ وہ جلد ہی اس اہم عہدہ کے لئے کسی ماہر اقبالیات کی تعیناتی کریں تاکہ یہ مرکز فعال کرادر ادا کرسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :