پاناما کے پیار میں

ہفتہ 19 نومبر 2016

Ammar Masood

عمار مسعود

نظر کا دھوکہ ایسے لمحے کو کہتے ہیں جب سب کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے مگر دکھائی نہ دے۔ ہر بات سامنے کی ہو مگر نگاہ کی قید سے عاری ہو۔ شائد اس میں قصور نظر کا بھی نہیں بعض اوقات ذہن ماوف ہو جاتا ہے۔ سوچ مفلوج ہو جاتی ہے۔ دماغ سن ہو جاتا ہے۔ حواس معطل ہو جاتے ہیں۔ حسیات جواب دے جاتی ہیں۔ نظر کوتا ہ ہو جاتی ہے۔
وزیر اعظم کے خلاف جو پانامہ کیس بنا ہے اس پر جو جو کچھ ممکن تھا وہ ہو رہا ہے۔

ابتداء میں مطالبہ تھا کہ پارلیمنٹ میں جواب دیا جائے۔ وہ ہو گیا تھا پھر الزام لگا کہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔ وہ بھی بن گئی تو ارشاد ہوا کہ چیف جسٹس سے خود تفتیش کروائی جائے انہوں نے معذرت کر لی تو پھر مطالبہ ہوا کہ کیس سپریم کورٹ کے حوالے کیا جائے یہ بھی ہو گیا تو اب عدالتی کمیشن کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔

(جاری ہے)

پھر مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کبھی گوالے کا حساب نہیں کیا وہ فارن اکاونٹس کے مسئلے قوم کو سمجھانے لگے ۔

جنہوں نے کبھی اس شہر سے باہر قدم نہیں رکھا وہ بھی بین الاقومی ٹیکس کے قوانین کے سبق پڑھانے میں لگے ۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے تعلیم کے ابتدائی مراحل بھی نہیں پار کیئے وہ بھی اخلاقیات کی بساط سجا کر روز فیصلے صادر کرنے لگے ۔ جتنا وقت ٹی وی سکرینوں پر پاناما لیکس نے لیا ہے اس تمام وقت میں بہت بہتر کام کیئے جا سکتے تھے۔عدالت کے کمرے کی کاروائی جس شدومد سے پیش کی جاتی ہے، جس ہیجان سے ٹی وی سکرینوں پر ٹکر چلتے ہیں، مبصرین کی رائے لی جاتی ہے، محققین کو اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے وہ ناقابل یقین ہے۔


ابھی تک وزیر اعظم نے جو کچھ کیا وہ عین جمہوریت ہے۔ اگر کسی ملک کے اعلی عہدیدا رپر کسی کو کرپشن کا گمان گزرے تو احتجاج اس کاحق ہے۔ وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں آکر اپنی صفائی پیش کرنی تھی یہ انکا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ معاملہ عدلیہ میں جاتا ہے تو اپنادفاع انکا حق بھی ہے۔ اپنے حق میں ثبوت پیش کرنا انکا فرض ہے۔ اور اسی کا نام جمہوریت ہے ۔

جب وزیر اعظم اپنی صفائی پیش کرتا ہے ۔ عدلیہ کے سامنے ثبوت رکھتا ہے۔ تو خان صاحب ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے مسئلہ پاناما کا نہیں انکی مرضی کے نتیجے کا ہے۔ اگر نتیجہ حسب منشا نکلتا ہے تو سب ٹھیک ہے ورنہ یہ نظام، یہ ایوان ، یہ عدلیہ ، یہ عوام سب غلط۔تحریک انصاف کو نہ ثبوت مطمئن کر رہے ہیں نہ منی ٹریل سے تسلی ہو رہی ہے۔

نہ پارلیمنٹ پر اعتماد کیا جا رہا ہے نہ اعلی عدلیہ کے اعلی ترین ججوں کی کارروائی مطمئن کر رہی ہے۔روز نئی موشگافیاں کر دی جاتی۔ ایک معاملہ ختم ہوتا ہے تو ایک اور افواہ اڑا دی جاتی ہے۔وہ افواہ دم توڑتی ہے تو ایک اور سازش سامنے آ جاتی ہے۔وہ سازش ناکام ہوتی ہے تو ایک اور کہانی سنائی جاتی ہے۔
جیو ٹی وی کے احمد نوارنی ایک بہت ہی ذہین رپورٹر ہیں ۔

انکے لہجے کی ملائمت ہی انکی سچائی کا ثبوت دیتی ہے۔ پاناما کے کیس پر انکی رپورٹس نے بہت تہلکہ مچایا۔یہ بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور پھر پورے وثوق سے سچائی کو بیان کرتے ہیں۔ان سے بات ہوئی تو یہ ادراک ہوا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر میڈیا جو کرر ہا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب بھی عدالت میں پاناما کا کیس لگتا ہے رپورٹر صبح سے ہی اپنے اپنے چینل کے مائیک اور کیمرے لے کر تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

تمام چینلوں کی ڈی ایس این جیز کا رش پڑا ہوتا ہے۔کمرہ عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔لمحہ بہ لمحہ کاروائی سکرینوں کی زینت بنتی ہے۔ کارروائی ختم ہوتی تو عدالت کے باہر گھمسان کا رن پڑ جاتا ہے بیشتررپورٹر بڑے شوق سے یہ سوال کر تے ہیں کہ کیا وزیراعظم نااہل ہو رہے؟ کیا وہ اب صادق اور امین نہیں رہے ہیں؟کیا ب انکو سزا ہو جائے گی؟کیا وزیر اعظم اب اس اسمبلی کے ممبرز رہ سکتے ہیں؟ دونوں طرف کے وکلاء اپنے اپنے موکل کے حق میں بیان دیتے ہیں اور ساری شام اس حوالے سے ٹی وی سکرینیں جگمگاتی رہتی ہیں۔

اسی کیس پر بحث ہوتی ہے۔ اسی کے حوالے سے تشریحات ہوتی ہیں۔ اس سارے ہنگامے میں کسی کو یاد نہیں رہتا کہ اسی عدالت میں ، اسی کمرے میں دو اور کیس بھی چل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق عمران خان کی آف شور کمپنی سے ہے جسکو کبھی ڈکلیئر نہیں کیا گیا اور دوسری جانب اس کے ریٹرنز دو ہزار چودہ تک جمع کرائے جاتے رہے ہیں۔ اس کے خلاف ثبوت لانے کے لئے کوئی الف لیلہ کی داستان درکار نہیں ذرا سی ہمت کر کے یہ تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

میڈیا کی بددیانتی عالم یہ ہے کہ جب دھرنا دیا جاتا ہے توایک ایک لمحے کی رپورٹنگ کی جاتی مگر جب اسی شخص کی غلط بیانی اور اثاثوں کو چھپانے کے حوالے سے کیس کمرہ عدالت میں سنا جاتا ہے توکمرہ عدالت خالی ہوتا ہے۔ نہ باہر کوئی رپورٹر مائیک اور کیمرے سے لیس ہوتا ہیں نہ کوئی کیس کے بارے میں سوال پوچھتا ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ پھر اسی کمرے میں جہانگیر ترین کے خلاف کیس لگتا ہے جس میں اگر الزامات ثابت ہو گئے توان پر جہانگیر ترین کے ساتھ ساتھ انکے صاحبزادے بھی نا اہل ہو سکتے ہیں۔

مگر نہ اس کو کوئی رپورٹ کرتا ہے نہ چینلوں پر بریکنگ نیوز چلتی ہے نہ شام کو اس بارے میں مبصرین قوم کو اپنی آراء سے آگاہ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے اثاثوں پر تو دن رات بات ہوتی ہے مگر اس ملک میں جو شخص وزیر اعظم بننے کا سب سے زیادہ متمنی ہے اس کے بارے میں راوی خاموش ہی رہتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے پاناما کے پیار میں نظر کا ایسا دھوکہ تخلیق کیا ہے کہ نگاہ کسی اور جانب نہیں اٹھتی۔
اور آپ جانتے ہی ہیں کہ نظر کا دھوکہ ایسے لمحے کو کہتے ہیں جب سب کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے مگر دکھائی کچھ نہیں دیتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :