اقتصادی راہداری کا پہلا تجارتی قا فلہ

منگل 15 نومبر 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بلا آخر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان میں مغربی روٹ کا راستہ استعمال کرتا ہواتجارتی قافلہ پاک فوج کی نگرانی میں سست ڈرائی پورٹ سے گوادر کی نئی تعمیر شدہ بین الاقوامی سی پورٹ پر پہنچ گیا ۔ جہاں سے آگے اس تجارتی مال کو دوبحری جہازوں کے ذریعے مشرق وسطی اور افریقی ممالک کے لیے روانہ کیا گیا۔

اس کام کے لیے گوادر پورٹ پر پہلے سے ہی ایک چینی جہاز موجود ہے ۔ ایک اور جہاز بھی پہنچ گیا ہے جن پر یہ مال لادا گیا۔ اس تاریخی موقع پرچین کے پہلے تجارتی قافلے کے مال کی بین الاقوامی منڈی میں روانگی کی افتتاحی تقریب میں پاکستان کے وزیر اعظم، وزیر اعلی بلوچستان، پاک فوج کے سپہ سالار، چینی سفیر اور پندرہ دوست ملکوں کے سفیروں اور دوسرے سرکاری حکام شریک ہوئے۔

(جاری ہے)

چین کی مختلف فیکٹریوں سے۱۵۰/ کنٹینرز چین کے ٹرکوں پر لدے ہوئے درہ خنجراب کراس کر کے سست کے مقام پر پاکستانی ٹرکوں پر منتقل کیا گیا تھا۔ پھر یہ قافلہ پاک فوج کی سیکورٹی میں سست باڈر سے شاہ راہ قراقرم کے راستے گلگت، جنڈ، کوہاٹ، ڈیرا اسماعیل خان،ژوب،کوئٹہ،قلات،پنجگور،تربت،مکران سے ہوتا ہوا گوادر پہنچ گیا۔ اب اگر اس راستے پر غور سے دیکھا جائے تو شاہ راہ قراقرم گلگت سے گزرتا ہے۔

پھر خیبر پختونخوا کے علاقے کوہستان، مانسہرا اور ہری پور سے پنجاب کے اٹک ضلع سے گزر کر خیبرپختونخوا میں کوہاٹ اور ڈیرا اسماعیل خان اور پھر بلوچستان کے علاقے ژوب ،کوئٹہ اور گوادر تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ مغربی روٹ ہے۔ مشرقی روٹ جو سست سے گلگت، حسن ابدال، لاہور، ملتان، کراچی، کوئٹہ اور گوادر سے تقریبا ۵۰۰ کلو میٹر کم پڑتا ہے۔ اب چین ۵۰۰ کلو میٹر کم راستہ ہی اختیار کرے گا جو اس کے لیے فاہدہ مند ہے جیسے اس نے اپنے پہلے تجارتی قافلے کے لیے اختیار کیا ہے۔

نہ جانے ہمارے خیبرپختونخوا کے بھائی کیوں شور مچاتے رہتے ہیں۔ اب وہ عدالت بھی چلے گئے۔ جب چین کے تجارتی قافلے اس راستے سے گزریں تو لامحالہ ان راستوں پر ترقیاتی زون بھی قائم ہوں گے اور لوگ بھی خوشحال ہوں گے۔ جہاں تک چین کے پہلے تجارتی قافلے کا ذکر ہے تو یہ چین کا اکیلا تجارتی قافلہ نہیں۔ چین کے اس تجارتی قافلے میں پاکستان کے دو تجارتی قافلے بھی شامل ہیں ایک تجارتی قافلہ سیالکوٹ سے ۵۰ ٹرکوں پر ۱۰۰ کنٹینرزاور دوسرا لاہور سے ۴۵ ٹرکوں پر ۹۰ کنٹینرز لدے چلا ہے۔

پاکستان کا پہلہ تجارتی قافلہ چین کے قافلے سے پنجاب ضلع اٹک کے شہرمیں جنڈ کے مقام پر شریک ہوا۔ دریائے سندھ کراس کر کے خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ میں داخل ہوا۔ دوسرا قافلہ لاہور،سکھر ، سبی سے کوئٹہ میں ان دو قافلوں میں شریک ہوا۔ ایک رات کوئٹہ میں آرام کے بعد پھر یہ چین پاک تجارتی قافلے گوادر کی بندر گاہ پہنچے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی یہ ساری سڑکیں ایف ڈبلیو او نے ۲۰۱۴ء سے لیکر اب تک بنائیں ہیں۔

جو یقیناً نوازحکومت کی کامیابی کا مظہر ہیں۔ میرے وطن کی اس شاہ راہوں سے یہ تجارتی قافلے ایسے ہی رواں دواں رہیں گے۔ میر ا اسلامی جمہوریہ پاکستان ملک ترقی کی شاہ راہیں کراس کر کے واقعی ایشیاً ٹائیگر بنے گا۔ اس وقت تو میرے ملک کے دشمنوں خاص کر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو یہ گوارہ نہیں اس نے اعلانیہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ثبوتاژ کرنے کے لیے فنڈ بھی مختص کئے ہیں۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند چند بلوچ لیڈروں کو سیاسی پناہ بھی دے رہا ہے۔ بلوچستان میں پہلے اس کی جاسوسی کا نیٹ ورک کلبھوشن یادیو کی شکل میں گرفتار ہوا۔ جس نے کے اعتراف بیان کیا کہ اس کا کام بلوچستان اور کراچی میں علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی میں ٹرنینگ اور مالی مدد شامل ہے۔ کوئٹہ میں وکیلوں، پولیس ٹرنینگ اور آج عین اس وقت جب کہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب گوادر پورٹ کا افتتاح کر رہے ہیں لسبیلہ کے قریب شاہ نورانی کی درگاہ پر خود کش حملہ کر وا کر ساٹھ کے قریب زاہرین کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر کے ایک قسم کی دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

کوئی فرق نہیں پڑتا کتے بھوکتے رہتے ہیں اور قافلے شاہ راہوں پر رواں دواں چلتے رہتے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تجارتی قافلے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شاہ راہوں پر بھی انشاء اللہ ایسے ہی چلتے رہیں گے چاہے ہمارے دشمنوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ ویسے دشمن کے نا پاک عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے پاک فوج کے سپہ سالار نے بارا ہزار نفوس پر ایک نئی سیکورٹی رجمنٹ قائم کی۔

اس رجمنٹ کے سپاہیوں کی سیکورٹی فراہم کرنے پر پہلاتاریخی تجارتی قافلہ چین سے درہ خنجراب کراس کر کے پاکستان کی حدود میں داخل ہوا۔ اپنے ملک کے چاروں صوبوں کی شاہ راہوں پر پر امن سفر کرتے ہوئے اپنے نئی تعمیر کردہ گوادر ڈیب سی پورٹ تک پہنچا۔ جہاں پر آج ہمارے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ بلوچستان، فوج کے سپہ سالار، چین کے سفیر اور پندرہ دوست ملکوں کے سفیروں کی موجودگی میں اس تاریخی دن تجارتی دن کا افتتاح ہوا۔

اے کاش کے اس تاریخی دن سارے صوبوں جن میں پنجاب، خیبرپختوخوا ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ کو بھی کو شریک کیا جاتا۔ ملک میں یکجہتی کو فروغ ملتا۔ پیپلزپارٹی نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ پروگرام ہماری حکومت کے دوران شروع ہوا ہمارے صدر نے پے در پے چین کے دورے کیے تھے وغیرہ۔ یہ بات صحیح ہو سکتی ہے اسی طرح ایٹمی پروگرام بھی مرحوم بٹھو نے شروع کیا تھا۔

اس کے بعد ساری حکومتوں اور فوج نے مل کر اس قومی اثاثے کی تکمیل کی مگر سہرا تو اللہ نے نواز شریف کے سر سجایا تھا۔ یہ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ نواز شریف اور چینی سفیر جنرل راحیل شریف کی ذاتی دلچسبی کا بھی اظہار کیا۔ کیوں نہ ہو یہ ملک سب کا ہے جس میں سیاسی، مذہبی، فوجی قیادت سب شامل ہیں۔ یہ سہرا سب کے سر ہے۔ اس خوشگوار موقعے پر قوم کی اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک کے تمام اداروں میں اعتماد اور یکجہتی کو فروغ دے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :