غیر معمولی حالات میں سپریم کورٹ کا غیر معمولی فیصلہ

منگل 30 اگست 2016

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی کی سر پرستی میں اعلیٰ عدلیہ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے پھانسی کی سزا کے مستحق ٹھہرائے جانے والے17 دہشت گردوں کی درخواستوں کو نا قابل سماعت گردانتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور فوجی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے انسانیّت کے دشمنوں کو تختہ دار پر لٹکانے کا پر وانہ جاری کر دیا ہے لاجر بنچ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ فوجی عدالتوں میں مجرموں کے حقوق کا پورا پورا تحفظ کیا گیا ہے دہشت گردوں کو ان کے جرم کے عین مطابق سزا دی گئی ہے پاکستان کے موجودہ حالات میں سپریم کورٹ کا موجودہ فیصلہ انتہائی غیر معمولی اہمیّت کا حامل ہے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان نے تو قانون و آئین کے مطابق اپنا فیصلہ سنایا ہے لیکن اس فیصلے پر پاکستانیوں نے جس خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قوم کے جذبات و احساسات کا ترجمان ہے پوری قوم ان دہشت گردوں کے خلاف متحد ہے اور ان کی گردنوں کو لمبا ہوتا دیکھنا چاہتی ہے بیس کڑوڑ پاکستانیوں کی ایک ہی آروزو ہے اور ایک ہی خواہش ہے کہ پاک سر زمین کو ان دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا جائے ان کی کمین گاہوں کو ملیا میٹ کر دیا جائے ان کے سہولت کاروں کے لئے یہ جہان عذاب بنا دیا جائے ان نرسریوں کو کھنڈرات میں بدل دیا جائے جہاں ان کی پرورش ہوتی ہے جس جگہ یہ دہشت گردی کا سبق لیتے ہیں ان کے خاتمہ کے لئے سارے قوانین کا بالائے طاق رکھ دیا جائے اور اگر ان کو واصل جہنم کرنے کے لئے آئین کو بھی تبدیل کر نا پڑے تو کر دیا جائے کیونکہ یہ ہمارے لئے ہمارے پیارے وطن کے لئے ہماری نسلوں کے لئے ہماری اقدارکے لئے ہماری بستیوں ہمارے قصبوں اور ہمارے شہروں کے لئے ایک ناسور ہیں ان کی دہشت گردانہ کا روائیوں نے نہ صرف ملک و قوم کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے بلکہ ہمارا دین اسلام جو امن،محبت،سلامتی،بردباری،اخوت،بھائی چارے اور پیار کا پیامبر ہے شیطان کے ان پیروکاروں کی وجہ سے تنقید کی زد میں آیا ہوا ہے عدلیہ کے اس فیصلے سے نہ صرف شدت پسندوں کے حوصلے پست ہونگے بلکہ دہشت گردی بھی مزید کم ہو گی وگرنہ کون نہیں جانتا ماضی قریب میں وکلاء کچھ میڈیا ہاؤسز اور سابق چیف جسٹس کے گٹھ جوڑ نے دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں جو رول ادا کیا ہے وہ انتہائی شرمناک اور نفرت انگیز ہے اگر وکلاء ان دہشت گردوں کی اپیلوں کی پیروی نہ کرتے اور جج خوف اور تشہیر کے دائروں سے نکل کر ملک وملت کے مفاد میں فیصلے کرتے تو آج دہشت گرد اس قدر مضبوط ہوتے نہ ہی پاکستان میں معصوم اور بے گناہ لوگ ان خون آشام بھیڑیوں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے نہ مسجدوں میں خودکش حملے ہوتے نہ امام بارگاہوں میں لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا نہ درس گاہوں میں خون کی ہولی کھیلی جاتی نہ قیام گاہوں میں موت کا رقص ہوتا اور نہ ہی پیارا دیس معاشی،معاشرتی اور اقتصادی طور پر اس قدر بد حال ہوتا۔

(جاری ہے)


ایسے بگڑے ہیں حالات میرے وطن کے
عوام ہیں بے حال میرے وطن کے
شہر ویراں ویراں ہیں میرے وطن کے
گلی کوچے ہیں سنسان میرے وطن کے
دھواں دھواں سی فضاء ہے دیکھو ذرا
پرندے بارود سے ہیں پریشاں میرے وطن کے
پھولوں کے نگر میں گولیوں کی برسات ہوگئی
استاد سب ہیں پریشاں میرے وطن کے
کب کیسے کون سا قریہ لہو لہان ہو جائے
بچے ہیں افسردہ میرے وطن کے
روٹی بجلی نہ پانی بس اندھیرے کی حکمرانی
عوام ہیں نڈھال میرے وطن کے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :